Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فضان درویش

صادق رضامصباحی۔ممبئی
حکومت ،عدلیہ اورانتظامیہ کے تعصبات سے چوٹ کھائے ہوئے ملک کے مسلمانوں کوایک بارپھرسخت ذہنی دھچکالگاہے۔کیرالہ کی نومسلم ڈاکٹرہادیہ (سابقہ نام اکھیلااشوکن )کے انتہائی واضح اورصریح بیان کے باوجود سپریم کورٹ نے اسے قطعی درخوراعتنانہیں سمجھا اورکورٹ نے وہی فیصلہ کیاجووہ کرناچاہتی تھی یاجوفیصلہ کرنے پراسے ’’اوپر‘‘سے مجبورکیاگیاتھا۔ہادیہ نے سپریم کورٹ سے کہاتھا کہ’’ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے ،مسلمان بنانے کے لیے اس پرکسی نے دبائونہیں بنایا اوروہ اپنے شوہرشفیع جہاں کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے‘‘کوسپریم کورٹ نے بالکل نظر انداز کر دیا۔سوال یہ ہے کہ جب ہادیہ کے بیان کونظرانداز ہی کرنا تھا تواسے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں طلب کیوں کیاگیاتھا؟کورٹ نے دوران سماعت ہادیہ کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی اورکالج کے ڈین کو اس کاگارجین مقررکردیا۔اب اسے جوکچھ بھی پریشانی ہوگی تووہ صرف کالج ڈین سے ہی کہہ سکتی ہے۔
ہادیہ کے معاملے اورسپریم کورٹ کے تازہ فیصلے پرکئی زاویوں سے بحث کی جاسکتی ہے۔یہ معاملہ کئی ماہ سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔کیرالہ ہائیکورٹ کے حکم پرہادیہ اپنے والدین کے گھرپرسخت سیکیورٹی میں نظربندتھی ،اسے کسی سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے27نومبرکو اسے کمرۂ عدالت میں پیش کرنے کاحکم جاری کیاتھا تاکہ اسکے بیانات کی بنیادپراپنے فیصلے کی بنیاد ر کھی جا سکے مگرصدحیف !سپریم کورٹ سے ایسی توقع تونہ تھی۔سپریم کورٹ ہندوستانی مسلمانوں کا انصاف کاآخری بچاکھچاسہاراہے ۔جب وہیں سے اس طرح کے فیصلے صادرہونگے جوخلافِ عقل بھی ہونگے اور خلافِ انصاف بھی تو آخرمسلمان کہاں جائینگے ،کس سے انصاف کی بھیک مانگیں گے؟کیاسپریم کورٹ ہندوستانی مسلمانوں کومجبورکررہی ہے کہ وہ عدلیہ پر اعتمادکرناچھوڑدے ؟کیاعدلیہ سچ میں حکومت کے زیر اثرکام کرتی ہے ؟کیاوہ اپنافرضِ منصبی فراموش کر چکی ہے؟مجھے نہیں معلوم کہ اس فیصلے کے پیچھے سپریم کورٹ کی کیامنطق ہے اورکیاقانونی وتکنیکی نقص ہے مگرسپریم کورٹ نے یہ اشارہ ضروردیدیاہے کہ ہندوستان میں مسلمان ہوناگویا’’جرم ‘‘ہے اورجوبھی غیر مسلم اسلام قبول کریگااس کواسی طرح کافیصلہ سنایاجائیگا۔ فرض کیجیے کہ اگراکھیلا،مسلمان نہ بن کر کوئی اورمذہب قبول کرلیتی توکیااسوقت بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ یہی ہوتا؟
سپریم کورٹ میں ہادیہ کے بیان کے ردعمل میں مخالف پارٹی کے وکلانے جودلیلیں دی ہیں انپرسرپیٹ لینے کو جی چاہتاہے۔ حر یف وکلاکاکہناتھا کہ ہادیہ کے دماغ کو ہپناٹائزکیاگیاہے اسی لیے وہ ایسابیان دے رہی ہے۔حیرت ہے کہ ہادیہ کئی ماہ سے اپنے والدین کے گھر میں ایک طرح سے قیدوبندکی صعوبت جھیل رہی تھی ،اسے کسی سے ملنے بھی نہیں دیاجارہاتھاتواسکے ذہن کااغواکس نے کیا،کس نے اس کا دماغ اپنے کنٹرول میں لیا؟اس پورے عرصے میں گھرکے دروازے پرسخت سیکیورٹی لگی رہی توآخرکون آگیاجس نے اس کادماغ اپنے کنٹرول میں لے لیا؟دیکھاجائے توہادیہ کے دماغ کونہیں بلکہ خود ان وکلاکے دماغ کوہپناٹائزکیاگیاہے ؟یہی وجہ ہے کہ وہ غلط سلط دلیلیں دے رہے ہیں ۔ یہ دراصل یہ انکی وکالت نہیں بول رہی بلکہ پیچھے کوئی ’’اور‘‘ہے جوانہیں اس طرح کی بولی بولنے پرمجبورکررہاہے۔چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی سپریم کورٹ کی 3 رکنی بنچ نے جب ہادیہ سے پوچھاکہ کیاوہ سرکاری پیسے پراپنی طبی تعلیم جاری رکھنا چا ہتی ہے تواس نے ببانگ دہل کہاکہ جب میرے شوہرمیراخرچ برداشت کرسکتے ہیں تومیں سرکاری پیسے کااستعمال کیوں کروں؟ان تمام حقیقتوں کے باوجود سپریم کورٹ نے ہادیہ کے بیان کونظراندازکرتے ہوئے مخالف پارٹی کے وکلاکی دلیلوں کوتسلیم کر لیا اور اگلی سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔ 
سپریم کورٹ کے فیصلے سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ وہ بھی آرایس ایس کی طرح اس معاملے کو’’لوجہاد‘‘مان رہی ہے اور چاہتی ہے کہ اسطرح کے معاملات کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ ملک میں ’’لوجہاد‘‘کے واقعات کوکنٹرول کیاجاسکے۔گویااسطرح ہمارے معزز ججوں نے سپریم کورٹ نہیں بلکہ ’’حکومت ‘‘کا کردار نبھانے کی کوشش کی ہے۔اس فیصلے کی معنویت اس تناظرمیں مزیدبڑھ جاتی ہے کہ چندہی دنوں کے بعد گجرات میں ریاستی الیکشن ہونیوالے ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی اپنی ’’ناک‘‘بچانے کیلئے اپنے ہاتھوں پیروں کی ساری قوت یکجاکرکے بی جے پی کوفتح دلانے کیلئے گجرات میں بیٹھ گئے ہیں۔گویایہ الیکشن بی جے پی نہیں بلکہ خود نریندرمودی لڑرہے ہیں اورواقعہ بھی یہی ہے کہ یہ لڑائی بی جے پی کی کم ، مودی کی زیادہ ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے بی جے پی گجرات میں کیا فائدہ حاصل کرناچاہتی ہے،اس پر کچھ کہناقبل ازوقت ہوگالیکن ایک بات توطے ہے کہ یہ فیصلہ بڑے’’دوررَس نتائج ‘‘کاحامل ہے ،دیرسویرہی سہی یہ ’’راز‘‘طشت ازبام ہوہی جائے گا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے کئی سوالات سر ابھار رہے ہیں اوریہ سوالات اتنے نوکیلے ہیں کہ انکی چبھن شایدفیصلہ سنانیوالے ہمار ے معززجج حضرات اورہادیہ کے بیان پرتیکھاردعمل ظاہرکرنے والے وکلاکوبھی برداشت نہ ہومگرکوئی میرے کانوں میں پھونک رہاہے کہ میاں!یہ صرف تمہاری خام خیالی ہے۔جب دماغوں میں تعصبات کے جالے لگے ہوں ،ضمیرگروی رکھے جاچکے ہوں،قلم خریدے جا چکے ہوں تو پھرمعاشرے میں ایسے’’ حادثات‘‘ ہوتے ہی رہتے ہیں اوراب تو ہمیں اس طرح کے’’ حادثات‘‘ کاعادی ہوجاناچاہیئے بلکہ قدرت کی مارہم پر ایسی پڑرہی ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان اسکے ’’عادی‘‘  توبن ہی چکے ہیں۔ابھی توایک ہادیہ ہے ، مستقبل میں نہ جانے کتنی ’’ہاد یہ‘‘باقی ہیں جن کیساتھ ایساہی ’’حادثہ‘‘پیش آنیوالاہے مگرکیاسپریم کورٹ ،مخالف وکلابشمول آرایس ایس جیسی زعفرانی تنظیمیں اس خیال میں ہیں کہ اسلام قبول کرنے کا سلسلہ ختم ہوجائیگااورمستقبل میں اب کوئی ’’ہادیہ ‘‘ منظرعام پر نہیں آئیگی ؟نہیں ،ہرگزنہیں،ہرگزنہیں۔جن معاملات کو ’’لوجہاد‘‘جیسے بدنام زمانہ لفظوں میں ملفوف کرکے پیش کیاجارہاہے وہ دراصل ’’فطرت کی طرف واپسی‘‘کاعمل ہے اورانسان چا  ہے کسی سے بھی بغاوت کر لے فطرت سے بغاوت کبھی نہیں کرسکتااس لیے ا ن معاملات کو’’لوجہاد‘‘سے جوڑنے والے آرایس ایس کے بھائیو!مسلمانوں سے دشمنی میں اتنابھی آگے مت جائیے کہ ملک کونقصان پہنچ جائے اورپوری دنیا میں ہندوستان کی جمہوریت داغ دارہو جائے ۔مجھے بس کہنا یہی ہے کہ ہادیہ کادماغ بالکل صحیح ہے ۔اسے کسی نے ہپناٹائزنہیں کیا ،اسکے ذہن کااغوانہیں ہوا مگراسکے مخالف وکیلوں نے آڑی ترچھی دلیلیں دیکریہ ضرور ثابت کردیاکہ دراصل انہی کادماغ ہپناٹائزکیاگیاہے اورانہی کے ذہن وفکرکومغلوب کیاجاچکاہے اسلئے  ہادیہ کوکسی گارجین کی ضرورت نہیں بلکہ ان وکلاکو’’گارجین‘‘ کی ضرورت ہے مگر افسوس،صدافسوس !کون سنتاہے فغانِ درویش۔
 
 

شیئر: