سمیر حیدر کا خاندان اپنے اپارٹمنٹ میں دبکا ہوا تھا اسلحہ بردار ان کے آبائی شہر بنیاس میں دندنا رہے تھے اور شام کے اقلیتی علوی فرقے کے افراد کو تلاش کر رہے تھے۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چوبیس گھنٹے کے کربناک انتظار کے بعد سمیر حیدر ان کی بیوی اور دو بیٹوں کو عین وقت پر بچ نکلنے میں ان کے ایک دوست نے مدد فراہم کی اگر وہ پانچ منٹ مزید رک جاتے تو خاندان سمیت مارے جاتے۔
مزید پڑھیں
-
-
شام کی نئی حکومت میں شامل ہونے والی پہلی خاتون کون ہیں؟
Node ID: 883392
-
شام کے نئے حکمرانوں کو کن سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے؟
Node ID: 886940
بچ نکلنے کے بعد 67 سالہ حیدر نے بتایا ہے ’پناہ گاہ سے نکلنے کے چند منٹ بعد مسلح افراد کا جتھہ عمارت میں گھس آیا اور وہاں موجود علویوں کو قتل کر دیا جن میں حیدر کے دو بڑے بھائیوں اور بھتیجے کو بھی مار ڈالا۔‘
شام میں 14 سالہ خانہ جنگی جس سے ملک اب نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اس دوران حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کو ممکنہ طور پر شام کی جدید تاریخ کے انتہائی خونریز 72 گھنٹوں میں شمار کیا جاتا ہے جو بدلے کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جنم دے سکتا ہے۔
گذشتہ جمعہ کی صبح سے اتوار کی رات تک بڑی تعداد میں علویوں کے رہائشی ساحلی صوبوں اور قریبی صوبوں حما اور حمص کے گھروں میں مسلح حملہ آور گھس آئے اور خاندان سمیت عام لوگوں کو قتل کیا۔

برطانیہ میں قائم شامی مبصر برائے انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق اس ہولناک لڑائی میں تقریباً 1000 عام شہریوں میں سے 200 کے قریب بنیاس میں مارے گئے۔
عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں میں شام میں موجود غیر ملکی جنگجو بھی تھے جو قریبی صوبوں سے آئے تھے اور کچھ حیات تحریر الشام سے وابستہ رہے ہیں۔
بنیاس میں بچ جانے والے افراد کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں میں سے کچھ ارد گرد کے دیہاتوں کے شامی تھےجو 2013 میں قریب کے قصبے بیضا میں ہونے والے قتل عام کا بدلہ لینے کے لیے آئے تھے۔

شام کے سابق صدر بشار اسد جو خود علوی ہیں انہوں نے اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں اور نیم فوجی دستوں کو اپنے فرقے کے افراد سے بھر دیا تھا۔
کچھ سنی پورے علوی فرقے کو اسد کی بربریت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ علویوں کا کہنا ہے کہ ہم بھی اس دور میں ظلم کا شکار رہے ہیں، ہمارے ساتھ بہت سی ناانصافیاں ہوئی ہیں۔
