Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام: فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ایک خاندان کے زندہ بچنے کی ہولناک داستان

شامی صدر کی مقرر کردہ آزاد کمیٹی ان مسلح حملوں کی تحقیقات کرے گی۔ فوٹو اے پی
سمیر حیدر کا خاندان اپنے اپارٹمنٹ میں دبکا ہوا تھا اسلحہ  بردار ان کے آبائی شہر بنیاس میں دندنا رہے تھے اور شام کے اقلیتی علوی فرقے کے افراد کو تلاش کر رہے تھے۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چوبیس گھنٹے کے کربناک انتظار کے بعد سمیر حیدر ان کی بیوی اور دو بیٹوں کو عین وقت پر بچ نکلنے میں ان کے ایک دوست نے مدد فراہم کی اگر وہ پانچ منٹ مزید رک جاتے تو خاندان سمیت مارے جاتے۔
بچ نکلنے کے بعد 67 سالہ حیدر نے بتایا ہے ’پناہ گاہ سے نکلنے کے چند منٹ بعد مسلح افراد کا جتھہ عمارت میں گھس آیا اور وہاں موجود علویوں کو قتل کر دیا جن میں حیدر کے دو بڑے بھائیوں  اور  بھتیجے کو بھی مار ڈالا۔‘
شام میں 14 سالہ خانہ جنگی جس سے ملک اب نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اس دوران حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کو ممکنہ طور پر شام کی جدید تاریخ کے انتہائی خونریز 72 گھنٹوں میں شمار کیا جاتا ہے جو بدلے کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جنم دے سکتا ہے۔
گذشتہ جمعہ کی صبح سے اتوار کی رات تک بڑی تعداد میں علویوں کے رہائشی ساحلی صوبوں اور قریبی صوبوں حما اور حمص کے گھروں میں مسلح حملہ آور گھس  آئے اور خاندان سمیت عام لوگوں کو قتل کیا۔

 کچھ سنی علوی فرقے کو اسد کی بربریت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ فوٹو روئٹرز

برطانیہ میں قائم شامی مبصر برائے انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق اس ہولناک لڑائی میں تقریباً 1000 عام شہریوں میں سے 200 کے قریب بنیاس میں مارے گئے۔
عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں میں شام میں موجود غیر ملکی جنگجو بھی تھے جو قریبی صوبوں سے آئے تھے اور کچھ حیات تحریر الشام سے وابستہ رہے ہیں۔
بنیاس میں بچ جانے والے افراد کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں میں سے کچھ ارد گرد کے دیہاتوں کے شامی تھےجو 2013 میں قریب کے قصبے بیضا میں ہونے والے قتل عام کا بدلہ لینے کے لیے آئے تھے۔

ہولناک لڑائی میں  ہزار عام شہریوں میں سے 200  بنیاس میں مارے گئے۔ فوٹو اے پی

شام کے سابق صدر بشار اسد جو خود علوی ہیں انہوں نے اپنی سیکیورٹی ایجنسیوں اور نیم فوجی دستوں کو اپنے فرقے کے افراد سے بھر دیا تھا۔
کچھ سنی پورے علوی فرقے کو اسد کی بربریت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ علویوں کا کہنا ہے کہ ہم بھی اس دور میں ظلم کا شکار رہے ہیں، ہمارے ساتھ بہت سی ناانصافیاں ہوئی ہیں۔

سابق صدر بشار اسد نے نیم فوجی دستے کو اپنے ہی فرقے کے افراد سے بھر دیا تھا۔ فوٹو اے پی

اس خونریزی نے عبوری حکومت کی ان کوششوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جن کے تحت وہ شام کی اقلیتوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ انہیں برابر کے شہری سمجھتے ہیں۔
پیر کی رات تک صورتحال پرسکون نظر آ رہی تھی تاہم حکومت نے اعلان کیا ہے کہ صدر کی طرف سے مقرر کردہ آزاد کمیٹی ان مسلح حملوں کی تحقیقات کرے گی۔
 

 

شیئر: