Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اللہ ھُو!

 
جاوید اقبال
ایک مہربان دوست نے واٹس ایپ کے ذریعے کوئی ڈیڑھ منٹ کا ایک فلم کلپ بھیجا۔ ایک وسیع و عریض میدان ہے۔ چاروں طرف برف ہے۔ ایک جگہ گہرے بھورے رنگ کا چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا ہے جہاں 20کے قریب افراد بیٹھے تالیاں بجاتے کوئی گیت گا رہے ہیں۔ ان کے درمیان 2ساتھی والہانہ رقص کر رہے ہیں۔ سردی سے بچنے کے لئے سب فوجی جیکٹوں میں ملبوس ہیں۔ تالیاں ہیں، ڈھولک کی مدھم آواز بھی ہے اور مجنونانہ رقص بھی! اور سردی ہے اور دور نیلے آسمان  پر پاکستانی پرچم چمک رہا ہے۔ برف کا ایک اصول ہے ۔ جب یہ گر رہی ہوتی ہے تو فضا کا درجہ حرارت صفر ہوتا ہے لیکن جب ہوا چلنے پر یہ پگھلنا شروع کرتی ہے تو منفی 30یا 40درجے کی سردی فضا کو نڈھال کرتی انسانی ہڈیوں میں گودے تک مار کرتی ہے۔ تو اس ویڈیو فلم میں پگھلتی برف کی بلندی پر رقص کرتے یہ دیوانے کون ہیں؟ 
پھر نیچے کی تحریر پر نظر جاتی ہے۔ لکھا ہے "باجوڑ میں ایک اہم بلندی پر قبضہ کرنے کے بعد پاک فوج کے جوانوں کا ولولہ ، دہشت گردوں کے حملے کے امکان سے بے نیاز جشن فتح منا رہے ہیں"۔  مزیر تفصیل کے لئے میں نے پاکستانی سفارتخانے میں مامور ڈیفنس اتاشی بریگیڈیئر شاہد منظور سے رابطہ کیا تو انہوں نے چند دلچسپ حقائق کا انکشاف کیا۔ باجوڑ سے دہشت گردوں کو مار بھگانے والے پاک فوج کے ان جوانوں کا تعلق ماؤنٹین لائٹ انفنٹری سے تھا۔ اسے ناردرن لائٹ انفنٹری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ یونٹ خصوصی طور پر انتہائی بلند اور سرد مقامات پر معرکوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بریگیڈیئر شاہد منظور نے انکشاف کیا کہ یہ نوجوان 14ہزار سے 20ہزار فٹ کی بلندیوں پرواقع دیہات سے بھرتی کئے جاتے ہیں۔ ان کی پیدائش او راٹھان انہی سرد مقامات پر ہوتی ہے او ران کے بدن انتہائی کم درجہ حرارت اور آکسیجن میں مشقت کے عادی ہوتے ہیں۔ اور تب پاکستانی ڈیفنس اتاشی نے بری دلفریب بات کہی۔"ہم 21کروڑ کی قوم ہیں۔ دشمن کی گولیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہمارے جوانوں کے سینے نہیں ختم ہوں گے۔"اور ان کوہستان زادوں کی شمالی برفوں میں جمائی محفل طرب  نے میرے ذہن کو ایک اور طرف موڑ دیا۔ ویلز میں ہر برس اکتوبر میں انعقاد پذیر ہونے والی فوجی مشقوں کا خیال آگیا۔ اس برس تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے ہونے والے اس بین الاقوامی مقابلے میں مختلف ممالک سے فوجیوں کی 131ٹیموں نے حصہ لیا تھا۔ دنیا کے اس سخت ترین امتحان میں ہر شریک فوجی کو اپنی پشت پر 25کلوگرام کا وزن اٹھائے 80کلومیٹر کا فاصلہ صرف 48گھنٹوں میں طے کرنا ہوتا ہے۔ ہر ملک کا گردہ 8فوجیوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسے اپنے راہنما کے زیر نگرانی اپنی بہترین کا رکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ راہنمائی کی قابلیت ، ضبط نفس، شجاعت ، جسمانی قوتی اور مضبوط قوت ارادی جیسے انسانی خائل کا ثبوت دنیا پڑتا ہے۔ 80کلومیٹر طویل راہ پر پہاڑیوں ، وادیوں، ٹھٹھراتے دریاؤں اور دلدلوں میں سے گزرتے دشمن کی بچھائی بارودی سرنگوں سے پہلو تہی کرتے مقررہ وقت کے اندر واپسی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ کیمبرین پٹرول کے نام سے مشہور ان مشقوں میں اس سال پاکستان کی 14پنجاب رجمنٹ کے 8جوانوں نے کپتان عثمان افضل کی راہنمائی میں 13سے 22اکتوبر تک منعقد ہونے والی ان مشقوں پر حصہ لیا تھا۔ 28شرکاء ممالک کی 139ٹیمیں تھیں۔ پاکستان کے علاوہ سویٹزرلینڈ، جارجیا ، ہالینڈ، برطانیہ ، لتھوانیا ، چلی ، برازیلی ، میکسیکو، نیپال ، ہنگری ، نیوزی لینڈ، آئرلینڈ، سربیا، چیک ریپبلک، آسٹریلیا ، بوسنیا، ہرزیگووینا، کینیڈا ، جرمنی ، یوکرین ، ہسپانیہ اور فرانس کے بہترین ترتیب یافتہ پیشہ ور فوجی بھی وہاں تھے۔ جب تقسیم انعامات کی تقریب  میں پاکستان کی ٹیم کو سونے کے تمغے کا حقدار قرار دیا گیا تو سارا آڈیٹوریم تالیوں سے گونج اٹھا۔ اگلی صف میں بیٹھے ہمارے 8وردی پوش اٹھے۔ ہر ایک نے تمغہ وصول کیا۔ فضا مسلسل تالیوں سے گونجتی رہی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مقابلے میں شریک مختلف ٹیموں میں سے تقریباً  ایک تہائی راہ میں ہی تھک کر گر گئی تھیں اور مقابلے سے باہر ہوگئی تھیں اور پاکستان نے چوتھی بار یہ مقابلہ جیتا تھا۔ کرہ ارض کی اکلوتی سپر پاور نے اس وقت اپنے جدیدترین اسلحے سے دنیا پر دہشت پھیلا رکھی ہے۔ صرف افغانستان میں اپنے ایک فوجی پر سالانہ ساڑھے 8لاکھ سے 14لاکھ ڈالر سالانہ صرف کرتا ہے۔ گھر میں اپنے وردی پوش کا سالانہ 30ہزار ڈالر کا مشاہرہ دیتا ہے اور گزشتہ 17برس سے اس کے قابو میں افغانستان نہیں آرہا۔ برطانیہ میں انفنٹری یونٹ کے ایک فوجی کا سالانہ مشاہرہ 25ہزار 946ڈالر ہے۔ کینیڈا اپنے جنگجو کو 30ہزار 429ڈالر جبکہ آسٹریلیا 31ہزار 509ڈالر دیتا ہے۔ جرمن فوجی سالانہ 22ہزار458ڈالر مشاعرے میں وصول کرتا ہے  اور فرانس کا وردی پوش 18ہزار 379ڈالر سالانہ وصول کرتا ہے۔ یہ بنیادی مشاعرہ ہے۔ مختلف مدات میں ملنے والے الاؤنس ان رقوم میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ پاک فوجی کا جنگجو سالانہ ساڑھے 3ہزار ڈالر تک بھی پہنچ جائے تو بڑی بات ہے۔ لیکن اس مادی حرص سے مستغنی وہ سرحدوں پر ، سرحدوں کے اندر دہائیوں سے ایک کارزار میں ہے۔ کسی بڑے ملک کے فوجی شدت اشتہار سے خودکشی کرتے ہیں تو کسی سپر پاور کے جنگجو ایک ہی معرکے کے بعد نفسیاتی مریض ہو کر اسپتالوں میں جاگرتے ہیں اور ہمارے شمشیر زن ہیں کہ محدود وسائل رکھنے کے باوجود کیمبرین پٹرول میں 4بار وطن عزیز کے گلے میں سونے کا تمغہ ڈالتے ہیں۔ بلندیوں کے برف زاروں میں خون منجمد کر دینے والی سردی میں وطن کا پرچم بلند کرتے گیت گاتے ہیں۔ رقص کرتے میں۔ آخر یہ کیا ہے؟  آخر یہ کیا ہے؟
اللہ ھو! اللہ ھو!
 

شیئر:

متعلقہ خبریں