ڈبلن ....آئرلینڈ کے ایک باشندے ابراہیم حلاوہ کو جسے حال ہی میں مصر میں 4سال قید کے بعد بری کیا گیا ہے بتایا کہ اس نے جیل میں اپنے ساتھیوں کو دیکھا جنہیں انتہا پسند بنایا جارہا ہے اوروہ گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی جیلوں میں داعش کے خیالات اپنا رہے ہیں۔ 21سالہ ابراہیم حلاوہ کو 2013ءمیں دھرنے کے دوران گرفتارکیا گیا تھا۔ اسے6سے سے زیادہ نظر بندی مراکز میں رکھا گیا اور اکتوبر میں رہا کیا گیا۔ اس نے جو واقعات بیان کئے ہیں اس سے مصری جیلوں کی بدترین صورتحال کا اندازہ ہوتا ہے۔ حلاوہ ڈبلن کے نواحی علاقے کرم نیل میں مصری نژاد والدین کے یہاں پیدا ہوئے تھے۔ انہیں قتل و غارتگری کے لئے اکسانے کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں روزانہ سلاخوں سے مارا جاتا اور زنجیروں سے باندھا جاتا۔ انہوں نے کہاکہ شروع میں تو کسی نے داعش کے بارے میں نہیں سنا تھا لیکن جب مجھے رہا کیا گیا تو اس وقت 20فیصدسے زیادہ قیدی داعش کے کھلے عام حامی بن چکے تھے۔گرفتار شدگان میں بیشتر انجینیئر، طلباءاور ڈاکٹر تھے جو جلد سے جلد اپنے گھر جانا چاہتے تھے لیکن جیلوں میں بند تھے اور حکام نے انہیں قید رکھنے کی وضاحتیں بھی پیش نہیں کی تھیں۔ ان میں سے بیشتر انتقام لینا چاہتے تھے۔ حلاوہ کا کہناتھا کہ جیل حکام انہیں اور انکے ساتھیوں کو” سیاسی قیدی“ کہا کرتے تھے۔ کوٹھری 10لوگوں کی تھی مگر درجنوں لوگ بھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے دیوار پر بھی ”سیاسی قیدی “ کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ سیسی کی حکومت، اخوان المسلمین کے رہنما اور سابق رہنما مرسی کے گروپ کو دہشتگرد تنظیم کہتی ہے اور اس بات سے انکاری ہے کہ اس نے سیاسی قیدیوں کو نظر بند رکھا ہوا ہے۔ حلاوہ کا کہناتھا کہ بیشتر قیدیوںکا تعلق اخوان المسلمین سے ہے اور نئے قیدی جیل میں آتے ہی رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیل کے گارڈز آخر میں ہم سے بڑی بدتمیزی کرنے لگے تھے کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ جو قیدی رہا ہوکر جاتے ہیں وہ فیس بک پر اپنے کٹر سیاسی نظریات کا پرچار کرتے۔