سعودی اخبارالشرق الاوسط میں شائع ہونیوالے کالم بعنوان ’’قطری میڈیا کی مایوسی اور خسارہ‘‘کا ترجمہ پیش خدمت ہے
قطر ی میڈیا کی مایوسی اور خسارہ
عبدالرحمان الراشد -الشرق الاوسط
متحدہ عرب امارات کے بیشتر باشندوں نے الجزیرہ سمیت قطری ٹی وی چینلز دیکھنا ترک کردیا۔انہوں نے نیٹ اور سوشل میڈیا کا بھی بائیکاٹ کردیا۔عملی طور پر قطری چینلز، نیٹ اور سوشل میڈیا کا وجود اس لئے نہیں رہا کیونکہ ریسیورز پر ان کا اندراج ختم کردیا گیا۔ بیشتر ٹی وی خدمات فون کمپنیوں سے جڑی ہوئی تھیں۔ ان پر بندش سے ٹی وی خدمات بھی ختم ہوگئیں۔
جہاں تک سعودی عرب اور خطے کے زیادہ تر ممالک کا تعلق ہے تو وہاں کے ناظرین نئی تبدیلی سے بہت کم متاثر ہوئے ہیں۔ یہاں ہیکرز قطری چینل بی این اسپورٹس کے ناظرین کو قابو کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ لوگ قطری چینلز چوتھائی فیس پر شاندار طریقے سے سعودی اور خلیجی ناظرین کو پیش کررہے ہیں۔ عملی طور پر قطر کی ابلاغی شہنشاہیت کے پتے موسم خزاں کی طرح یکے بعد دیگرے گرتے چلے جارہے ہیں۔نیوزچینلز میں لگائے گئے 5ارب ڈالر قطر کے ہاتھ سے نکل گئے۔قطرنے نہ صرف یہ کہ نیوز چینلز قائم کئے تھے بلکہ فلم سازوں اور کھیلوں کے مقابلے دکھانے کے معاہدے بھی کئے تھے۔ کثیر المقاصد نیٹ ورک بھی شروع کئے تھے۔ سوشل میڈیا کو بھی قابو میں رکھنے کے انتظامات کئے تھے۔ قطر، ترکی اور برطانیہ سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کنٹرول کرنے کے چکر چلائے گئے تھے۔ بیکار ثابت ہوئے۔ قطر یمن میں جنگ کیخلاف آگ بھڑکانے ، ایران کی مدد پر اکسانے اور سعودی حکومت کے داخلی فیصلوں کیخلاف عوام کو مشتعل کرنے والی جملہ کوششوں میں ناکام ہوگیا۔ حد تو یہ ہے کہ قطرسعودی عرب، مصر ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ پیدا ہونیوالے بحران کی بابت وہ خود کا دفاع بھی قابل قبول شکل میں نہ کرسکا۔
قطری حکام کو نہ صرف یہ کہ اربوں ڈالر کے ضیاع پر تشویش ہے بلکہ یہ تشویش اور یہ خسارہ اس نقصان کے مقابلے میں بہت کم ہے جو سیاسی اور ابلاغی محاذوں پر اسے ہوا ہے۔قطری حکام کی حکمت عملی تھی کہ خطے کی حکومتوں کو خوف زدہ کردیا جائے اور انہیں پیغام دیا جائے کہ قطری حکام خطے کے عوام کو ان کی حکومتوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے پر آمادہ کرنے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ قطری حکام کو اس حوالے سے مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیںآیا۔
قطرسے اختلاف کرنے والے ممالک نے قطری چینلز اور انکے ماتحت ابلاغی ذرائع سے چلائی جانیوالی پروپیگنڈہ مہم پر صبروتحمل کا مظاہرہ کیا البتہ جب تازہ اختلاف نے دھماکہ خیز شکل اختیار کی تو میڈیا نے معرکہ میں ایک اور عنصر کا اضافہ کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قطر نے برسہا برس کے دوران ابلاغی ٹیکنالوجی اور تجربا ت کے بل پر جو کچھ کمایا تھا اور اسکے ابلاغی وسائل نے پوری عرب دنیا میں رائے عامہ کا بڑا حلقہ اپنے حق میں کرلیا تھا وہ سب زندہ درگور ہوگیا…آخر یہ سب کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟۔
دراصل متعدد اقدامات بیک وقت ہوئے۔ ایک طرف تو قطری میڈیا کے چینلز کا بائیکاٹ کیا گیا ، دوسری جانب قطری میڈیا کے خلاف جوابی میڈیا کھڑا کیا گیا۔ مخالف آن لائن فون میدان میں اتار دی گئی۔
کیبل نیٹ ورک اور ٹی وی نشریات ، ٹیلیفون ریسیورز کے ذریعے پیش کرنے والے ممالک نے قطر کے ایسے دسیوں اسٹیشنوں کی شمعیں گل کردیں جو فرضی ناموں سے سرگرم عمل تھیں۔یہ اسٹیشن بنیادی طور پر قطر کے تھے مگر دوسروں کے ناموں سے چلائے جارہے تھے۔ ان میں سیاسی، دستاویزی ، فلمی اسٹیشن بھی تھے اور بچوں کی ذہن سازی کرنے والے چینلز بھی تھے ۔ ڈرامے دکھانے والے چینلز بھی شامل تھے۔بیشتر ناظرین اب ان میں سے کوئی بھی چینل دیکھنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ امارات کوبطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ امارات میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ڈش کے ذریعے قطری پروگرام دیکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ناظرین پروگرام ریسیوکرنے والے دیگر وسائل کا سہارا کیوں نہیں لیتے؟مثال کے طور پر پراکسی کی مدد سے وہ قطری چینل اور اسکے دم چھلا اسٹیشنوں کے پروگرام دیکھ سکتے ہیں مگر نہیں دیکھ رہے۔ وجہ یہ ہے کہ بہت سارے متبادل ٹی وی پروگرام ان کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔
خطے میں کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلے معمولی فیس پر دکھانے والے چینلز نے بھی قطر کے اسپورٹس چینل کو مات دی ہے۔ قطر اسپین، برطانیہ ، فرانس اور اٹلی سمیت متعدد اسپورٹس تنظیموں سے مقابلے دکھانے کے حقوق حاصل کرلیتا تھا ۔ اس حوالے سے بھی قطر کو مایوسی ہوئی۔
میرا اگلا مضمون الیکٹرانک افواج کی جنگ کی بابت ہوگا جس میں بتایا جائیگا کہ خطے کے ممالک نے الیکٹرانک جنگ کی باگ ڈور آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے کیا کچھ کیا ہے اور قطر کونیچا دکھانے کیلئے کس قسم کی الیکٹرانک فوج میدان میں اتاری گئی ہے۔ گزشتہ 10برسوں کے دوران جو ناظرین قطری میڈیا کی گود میں چلے گئے تھے ان کی بازیابی کیلئے کیا کچھ کیا گیا ہے۔
(بشکریہ:الشرق الاوسط)