سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار الریاض کے کالم کا ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔
غیر ملکیوں سے مکمل بے نیاز محال
فہد عامر الاحمدی - - الریاض
ایسے وقت میں جبکہ امریکہ کی وفاقی عدالت نے مخصوص ممالک سے آنے والے تارکین وطن کے داخلے پر پابندی کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کی حمایت کی۔ ایسے وقت میں جبکہ یورپی ممالک شامی اور افریقی تارکین وطن کی یلغار سے دوچار ہیں۔ ایسے وقت میں جبکہ بہت سارے ممالک تارکین وطن کو وسائل سے عاری کیمپوں میں ٹھہرائے ہوئے ہیں، کینیڈا نے آئندہ 3 برسوں کے دوران 10لاکھ تارکین وطن کی میزبانی کا اعلان کردیا۔
کینیڈا اب تک اسی انداز سے سوچ رہا ہے جس اندازسے امریکہ نویں عشرے کے اختتام تک سوچتا رہتا تھا کہ تارکین وطن ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا باعث بنتے ہیں۔ امریکہ نے اب اپنی سوچ بدل لی ہے اور وہ مخصوص مسلم ممالک کے تارکین وطن کے خیر مقدم کیلئے تیار نہیں۔
میں یہ بات بلا ادنیٰ مبالغہ عرض کررہا ہوں کہ کینیڈا کا مذکورہ فیصلہ خالص انسانی بنیادوں پر نہیں کیا گیابلکہ اسکا اولیں ہدف باصلاحیت تعلیم یافتہ اور اعلیٰ دماغ رکھنے والے تارکین وطن کو اپنے یہاں لانا ہے۔ کینیڈا دیگر مغربی ممالک کی طرح اپنے یہاں ایسے غیر ملکیوں کو نقل مکانی بلکہ ترک وطن کی ترغیب دیتاہے جو اعلیٰ پیشے کے ماہر ہوں یا کسی منفرد شعبے میں اسپیشلائزیشن کئے ہوئے ہوں یا خطیر رقم کینیڈا منتقل کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے جولائی میں شام کے 40ہزار اسکالرز اور زندگی کے مختلف شعبوں کے ماہرین کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا۔ ان دنوں ترکی میں 30لاکھ شامی پناہ گزیں سکونت پذیر ہیں۔
کسی بھی ملک پر اس پالیسی کیلئے تنقید نہیں کی جاسکتی کہ وہ باصلاحیت غیر ملکیوں کو اپنے یہاں آنے کی ترغیبات دے۔ یہ کام ترکی سے پہلے یورپی ممالک کرچکے ہیں۔ امریکہ گزشتہ 300برس کے دوران یہی کام کرتا رہا ہے۔ برطانیہ کا مسلسل شکوہ یہ ہے کہ ذہین لوگ مسلسل امریکہ جارہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سارے تارکین ایک جیسے نہیں ۔کچھ وہ ہیں جو ملک و قوم کو بنانے سنوارنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ مغربی دنیا نے واضح کردیاکہ اسے ایسے غیر ملکی بیحد عزیز ہیں جو انکی تعمیر وتر قی کا باعث بنیں اور انہیں وہ غیر ملکی قطعاً ناپسند ہیں جو نادار ہیں جن کے پاس دینے کیلئے نہ عقل ہے ، نہ ذہن ہے او رنہ ہی تجربہ۔
اب ہم اصل موضوع کی جانب آتے ہیں۔سعودی عرب میں ایک کروڑ غیر ملکی قیام پذیر ہیں۔ان میں کتنے ماہر اور کتنے سعودی شہریت کے حقدار ہیں یہ ایک اہم سوال ہے۔
ہمیں اپنے فن کے ماہر سعودی شہریت کے امیدوار غیر ملکی اور سعودی شہریت کے امیدوار عام غیر ملکی کے درمیان فرق کرنا ہوگا۔ یہاں پیدا ہونے والے اس حساب سے خارج ہیں۔ وہ اپنی ڈگری اور اسپیشلائزیشن سے ہٹ کر فرزندِ سرزمین کے ناتے شہریت کے حقدار بنتے ہیں لیکن وہ لوگ جو مملکت سے باہر پیدا ہوئے، وہیں انہوں نے تعلیم و تربیت حاصل کی اُنہیں وطن عزیز کی ضرورت کے تئیں طلب بھی کیا جاسکتا ہے اور شہریت بھی دی جاسکتی ہے۔
میں غیر ملکیوں سے مکمل بے نیازی کو محال سمجھنے والے لوگوں میں سے ہوں تاہم مفید اور مضر کے درمیان ہمیں فرق کرنا ہوگا۔ معمولی ہنر مند غیر ملکیوں کو سعودی شہریت دینے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ غیر ملکی ڈاکٹرز، انجینیئرز اور تجربہ کار اور اعلیٰ ڈگریاں رکھنے والے ایسے لوگوں کو سعودی شہریت دی جانی چاہئے جو طویل عرصے سے ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ترسیل زر امریکہ سے ہوتی ہے، سعودی عرب کا نمبر دوسرا ہے۔ فرق یہ ہے کہ امریکہ میں مقیم غیر ملکی وہاں کے شہری بن کر ملکی اقتصاد کی تعمیر میں حصہ لے رہے ہیں اور ترسیل زر سے کہیں زیادہ دولت امریکہ کو پیدا کرکے دے رہے ہیں۔ یہ کام سعودی عرب میں نہیں ہورہا ۔
سعودی عرب میں کثیر تعداد میں ایسے تارکین وطن موجود ہیں جو اپنے ہنر میں یکتا ہیں۔سعودی عرب سے لے بھی رہے ہیں اور اسے دے بھی رہے ہیں لیکن یہ اپنی بچت کا بھاری حصہ سعودی عرب میں نہیں بلکہ اپنے وطن میں لگا رہے ہیں۔ اس طرح سعودی عرب ایسے تارکین سے جو بالاخر وطن واپس ہوجاتے ہیں محروم ہوجاتا ہے ۔ ان سے ہی نہیں انکی بچت سے بھی۔