Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

القدس تنازع۔۔۔۔۔غیر جانبدار ثالث کی ضرورت

سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبارالمدینہ کے کالم کا ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔
القدس تنازع۔۔۔۔۔غیر جانبدار ثالث کی ضرورت
حسن ناصر الظاہری۔المدینہ
    امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ملک کا سفارتخانہ القدس منتقل کرنے کا فیصلہ کرکے ایک طرح سے فلسطینیوں سے کہیں زیادہ عرب عوام اور امت مسلمہ کی توہین کی ہے۔ صدر ٹرمپ اس فیصلے سے جو اہداف حاصل کرنے کا خیال ذہن میں قائم کئے ہوئے ہیں وہ اہداف پورے نہیں ہوسکتے۔امریکی صدر کے اس فیصلے سے رائے عامہ یہ بن جائیگی کہ اسرائیل کے ساتھ مستقبل میں مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔امریکہ امن عمل میں صاف ستھرے ثالث کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس فیصلے سے یہ حقیقت بھی بہت اچھی طرح سے منعکس ہوگی کہ امریکی حکومت امن تقاضے قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس فیصلے سے یہ سچائی بھی اجاگر ہوگی کہ امریکہ مکمل طور پر اسرائیل کاجانبدار ہے۔
    سچی بات یہ ہے کہ امریکی صدر کا فیصلہ ہم لوگوں کیلئے ناگہانی نہیں تھا۔ امریکی کانگریس بھاری اکثریت سے 1995ء میں القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرچکی تھی اور 1999ء میں تل ابیب سے القدس امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ اسی کے پہلو بہ پہلو اسرائیل نے القدس کو یہودی تشخص دینے کا وہ عمل مکمل کرنا شروع کردیا تھا جس کا آغاز 1967ء میں کیا گیا تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسرائیل نے ’’ القدس3000‘‘ کے عنوان سے القدس کو یہودی سلطنت کا دارالحکومت بنائے جانے کا 3ہزار سالہ جشن بھی منایا تھا۔ یہود کا گمان ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے 996قبل عیسوی میںالقدس کو یہودی ریاست کا دارالحکومت بنا دیاتھا۔ اسرائیل نے یہ جشن عالمی رائے عامہ کا ذہن بنانے کیلئے منایا تھا۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ پوری دنیا مشترکہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر راضی ہوجائے۔
    اسرائیل کے ساتھ ہونے والے جملہ مذاکرات نے ثابت کردیا ہے کہ اس کے ساتھ بات چیت کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔وجہ کیا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ امن عمل کے مخالف اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ (طابہ) معاہدہ دراصل فلسطینیوں کیلئے معاہدہ بلفور کے نقطہ آغاز کا درجہ رکھتا ہے ۔ انہوں نے اسی لئے اپنے اُس وزیر اعظم کو جس نے فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموارکی تھی آگے چل کر قتل کردیا تھا۔ امن عمل کے مخالف یہودی شمعون پیریز کو یہودیوں کے قاتلوں کو قانونی حیثیت اور فلسطینی ریاست کے بانی ہونے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
    قارئین کو معلوم ہونا چاہئے کہ طابہ معاہدے نے فلسطینی مذاکرات کاروں کیلئے القدس اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کی سرحدوں کے حوالے سے سر خ نشان مقر ر کردیئے تھے۔ اس معاہدے میں مشرقی القدس کے باشندوں کو حکومتی خود اختیاری کونسل کے انتخابات میں امیدوار بننے سے بھی استثنیٰ دیا گیا۔ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں ۔  کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں حقِ خود اختیاری اور خود مختار نمائندگی کا حق دیا گیا،پھر میڈرڈ معاہدے کے تحت اس سے پسپائی اختیار کرلی گئی ۔میڈرڈ معاہدے میں فلسطینیوں کو متعدد حقوق دیئے گئے جنہیں عبوری مرحلے کے دوران مکمل حکومت خود اختیاری کا عنوان دیا گیا نیز تمام فلسطینی شہروں اور علاقوں سے انخلاکو تسلیم کیا گیا۔ جملہ اختیارات فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کا اصول قبول کیا گیا۔ آگے چل کر اس سے بھی دستبرداری اختیار کرلی گئی۔
    اسرائیل کے آنجہانی وزیر اعظم اسحاق رابن نے طابہ معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات میں اپنے مسلمہ مطالبات اور اصولو ں سے کسی بھی قیمت پر دستبردار نہیں ہوگا۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ القدس کی تقسیم اسرائیل کیلئے ناقابل قبول ہوگی۔ القدس اسرائیل کا دارالحکومت تھا، ہے اور رہے گا۔انہوں نے یہ بات بھی صاف کردی تھی کہ اسرائیل 1967ء کی سرحدوں پر کسی قیمت پر واپس نہیں جائیگا۔انہوں نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ دریائے اردن اسرائیل کیلئے محفوظ سرحدی لائن ہے۔
    ہمیں حقیقت پسند بننا ہوگا۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ اسرائیل سے اپنے مطالبات منوانے کیلئے ہمارے سامنے اس سے مذاکرات کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ یہ کام یقیناثالث کے ذریعے ہی ممکن ہوگا مگر اس مرتبہ یہ ثالث نہ تو ٹرمپ ہونگے ، نہ انکی حکومت ہوگی، ہمیں اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کیلئے غیر جانبدار ثالث کی سرپرستی مطلوب ہے ۔اس کیلئے ہمیں کوشش کرنا ہوگی۔ عرب امن فارمولا اسرائیل سے عرب حقوق حاصل کرنے کیلئے روڈ میپ کا کام کرسکتا ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر ہم ’’امن کے بدلے زمین‘‘اصول کے تحت اپنے غصب شدہ جملہ حقوق حاصل کرسکیں گے۔

* * * * *

شیئر: