Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آنیوالی نسلوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ترغیبات۔۔۔۔سعودی اخبارکا اداریہ

18دسمبر پیر کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے جریدے الریاض اور الاقتصادیہکے اداریے کا ترجمہ نذر قارئین ہے
حوثی اور خونریزی کی بھول بھلیاں- - - - الریاض
یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کو حوثیوں نے قتل کرکے یمنی بحران کے تصفیئے اور قیام امن کی ہر گفتگو کا دروازہ چوپٹ بند کردیا۔ علی صالح کو ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے ایسے وقت میں قتل کیا جبکہ یمن میں مکالمے کی زبان کی لہر چل کھڑی ہوئی تھی اور یمن میں ایران کی تخریبی سازش منکشف ہوگئی تھی۔
    یمن کی آئینی حکومت کی مدد سے متعلق بین الاقوامی برادری کی ہم آہنگی نے نیا رخ اختیار کرلیاہے۔ اس کا باعث 2اہم واقعات بنے۔ ایک تو سعودی دارالحکومت ریاض پر حوثیوں کا میزائل حملہ۔ دوم اس سے قبل ایرانی ساختہ میزائل سے مکہ مکرمہ کو نشانہ بنانے کی حوثیوں کی کوشش۔علاوہ ازیں جنرل پیپلز کانگریس کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کے خلاف ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی جانب سے تعاقب اور قتل عام کا مشن۔ان سارے واقعات نے ظاہر کردیا کہ حوثی خونریزی کی بھول بھلیوں سے نکلنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ایرانی ملاؤں نے ان کیلئے خونریزی کیلئے جو دائرہ مقرر کردیا ہے وہ اسے عبور کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
    یمن کی سیاسی جماعتوں سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ یمن کو فارسی سازش سے نجات دلانے کیلئے آئینی حکومت کے پرچم تلے جمع ہوںاور یمن کے حال و مستقبل کو داؤپر لگانے والے عناصر کی بیخ کنی کے مشن میں حصہ لیں۔
    یمن کے مستقبل کا خاکہ اب اس کے باعزت فرزند مرتسم کررہے ہیں۔ انہیں ایک طرف تو سعودی عرب کی زیر قیادت عرب اتحاد کی حمایت حاصل ہے اور دوسری جانب بین الاقوامی برادری ان کی پشت پناہی کا عزم کئے ہوئے ہے۔حوثی باغیوں کے سامنے پناہ کیلئے اب صرف غار باقی بچے ہیں۔ ایران یہ دیکھ کر کہ عالمی برادری خطے کے ممالک کے خلاف اس کی جارحانہ پالیسی کو لگام لگانے کا تہیہ کرچکی ہے میدان سے بھاگ کھڑا ہوا۔
* * * * * *

 

آنیوالی نسلوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ترغیبات- - - - - - -الاقتصادیہ
    خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے 2018ء کے دوران نجی اداروں کی حوصلہ افزائی کیلئے 72ارب ریال کی خصوصی منظوری دیدی۔وہ آئندہ چند برسوں کے دوران اس مد میں 200ارب ریال سے زیادہ جاری کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔یہ وہ خبر ہے جس کا انتظار ہر ماہرین اقتصاد کو تھا ۔ تیل کے نرخوں میں کمی کے مسئلے سے دوچار ہونے اور شرح نمو میں کمی کے بعد سے ہر کس و ناکس کو نجی اداروں کی حوصلہ افزائی کیلئے موثر اقدام کا انتظارتھا۔ یہ فیصلہ پہلے بھی آسکتا تھا  تاہم فی الوقت جو یہ فیصلہ کیا گیا ہے اس کے اپنے اسباب و محرکات ہیں۔اس کے تحت مختلف محاذوں پر نجی ادارے کو سہارا ملے گا ۔ اگر یہ سہارا نہ ملتا تو نجی ادارہ بکھر سکتا تھا۔ خادم حرمین شریفین اور ان کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان گزشتہ برسوں کے دوران اقتصادی و ترقیاتی وژن کیلئے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ تمام اقتصادی مسائل حل ہوں۔ متعدد قوانین میں اصلاحات لائی گئیں۔ کئی وزارتوں، محکموں اوراداروں کا نیا ڈھانچہ تیار کیا گیا۔ نجکاری کے منصوبے کو باقاعدہ دائرے میں لایا گیا۔ متعدد منصوبے شروع کئے گئے وسیع البنیاد معاہدے کئے گئے۔ سرکاری اخراجات کو کنٹرول کیا گیا ، بدعنوانی کے خلاف جنگ اوپر سے نیچے کی طرف چھیڑی گئی۔ ان ساری اصلاحات کے بعد ترغیبات منصوبے کا اعلان کیا گیا۔
    چونکہ سعودی حکومت 2030تک واضح تصور ترتیب دیئے ہوئے ہے لہذا ترغیبات کا رخ ایسے شعبوں کی طرف رکھا گیا ہے جنہیں اس کی اشد ضرورت تھی۔ سب سے زیادہ زور مکانات ، چھوٹے اداروں ، کانکنی، توانائی اور برآمدات پردیا گیا۔
    اب ہمارے سامنے اقتصادی ترغیبات کا جامع منصوبہ ہے اس کی بدولت شرح نموبراہ راست متاثر ہوگی جس سے قوت خرید مضبوط ہوگی۔ چھوٹے اداروں کی اہمیت و حیثیت پختہ ہوگی۔ ان اداروں کو اپنے آپ کو منوانے کیلئے براہ راست آسامیاں پیدا کرنی ہونگی۔ رہائشی منصوبوں کی ترغیبات سے ٹھیکیداروں کی چاندی ہوگی۔ برآمدات کے فروغ پروگرام سے بڑی بڑی کمپنیوں کو عالمی منڈیوں میں قدم رکھنے کے مواقع ہاتھ آئیں گے ، مزید منافع کے امکانات روشن ہونگے کل ملاکر سعودی اقتصادی نظام میں شرح نمو کا پہیہ تیزی سے آگے کی طرف چلے گا۔

شیئر: