Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سماعِ حدیث کی ایک روحانی نشست

   
عصر حاضر میں اسلام کی جتنی خدمت سعودی عرب نے کی ہے شاید ہی کسی دوسری حکومت نے کی ہو
* * * عبدالمالک مجاہد۔ ریاض* * *
جالیات غرب الدیرہ ریاض کے زیر اہتمام ایک علمی نشست 9دسمبر2017ہفتہ کو عصر کے بعد سے شروع ہو کر رات کے10 بجے تک جاری رہی۔ کوئی3,2ہفتے قبل مجھے پاک پروفیشنل فورم کے ساتھیوں نے بتا دیا تھا کہ محدثِ عصر علامہ عبداللہ ناصر رحمانی سعودی عرب کے دورے کے دوران ریاض بھی تشریف لا رہے ہیں۔ ہم ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم صحیح بخاری میں سے کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ کے علامہ ناصر الدین البانی ؒکے انتخاب کو سبقاًسبقاً پڑ ھیں۔ میں نے اس تجویز کو سنا تو نہ صرف اس کی تحسین کی بلکہ ہر قسم کے تعاون کا بھی یقین دلایا۔
     علامہ عبداللہ ناصر رحمانی سے میرے گزشتہ30 سال سے مراسم چلے آ رہے ہیں۔ وہ بلاشبہ بہت بڑے عالم ِدین‘ محدث ‘ خطیب اور بہترین مدرس ہیں۔ مجھے ان کے حلقات سے استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ حدیث کو سبقاً پڑھنا‘ ایک محدث کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنا بہت بڑی سعادت ہے۔
    اللہ کے نبیکی احادیث سیکھنے اور پڑھنے کے حلقے‘ زمانہ قدیم سے چلے آ رہے ہیں۔ مسجد نبوی شریف میں اصحاب صفہ کا چبوترہ سب سے پہلی اسلامی یونیورسٹی تھی۔ اللہ کے رسولکے چچیرے بھائی سیدنا عبداللہ بن عباسؓکو حبر الامہ کہا گیا۔ انہوں نے اللہ کے رسول سے بھی علم سیکھا ۔آپنے ان کے لئے دعا فرمائی تھی کہ:اے اللہ! انہیں قرآن مجید کی تفسیر کا علم عطا فرما۔ خود انہوں نے جس طرح علم سیکھا وہ آج کے طالب علموں کے لئے روشن مثال ہے۔ وہ خود بھی عالم تھے اور علماء کی قدر کرنا جانتے تھے۔
    ایک مرتبہ سیدنا زید بن ثابتؓ گھوڑے پر سوار تھے کہ یہ ہاشمی نوجوان آگے بڑھتا ہے۔ لپک کر ان کے گھوڑے کی لگام تھام لیتا ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کوئی عام شخصیت نہ تھے ۔اللہ کے رسولکے چچیرے بھائی تھے۔ وہ چچا زاد بھائی جس سے اللہ کے رسولبہت محبت کرتے تھے۔ زید بن ثابت کہتے رہے:
    ارے یہ کیا عبداللہ !چھوڑو چھوڑو، یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ آپ میرے گھوڑے کی لگام کو چھوڑیں۔ عبداللہ بن عباسؓ  فرماتے ہیں: ھکذا امرنا ان نفعل بعلمائنا۔’’ ہمیں اس طرح اپنے علماء کی عزت و توقیر کا حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘
    امام مالک بن انس مسجد نبوی میں حدیث پڑھانے کے لئے بیٹھتے تو خوب تیار ہو کر‘ اعلیٰ لباس زیب تن کرتے‘ خوشبو لگاتے‘ بڑے وقار کے ساتھ شاگردوں کے سامنے تشریف لاتے تھے۔ فرماتے کہ حدیث کی عزت و توقیر کا تقاضا ہے کہ اس کے لئے خوبصورت ماحول ہو۔
    اللہ کے نبی  تو نفاست کے مرقع تھے۔ آپ کے جسم اطہر سے خوشبو آتی تھی۔ نہایت اجلے اور صاف ستھرے کپڑے پہنتے تھے۔ سیدہ ام سلیم آپ کے پسینہ مبارک کو جمع کر کے شیشی میں ڈالتی تھیں۔
     اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے نبی کی حدیث کو پڑھنے پڑھانے کے لئے اہتمام کرنا، احادیث کو سننا،پڑھنا،انہیں یاد کرنا، لوگوں تک آگے پہنچانا  بہت بڑی سعادت اور عزت کی بات ہے۔ آپکا ارشاد مبارک ہے:
    ’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کو سر سبز اور شاداب ہرا بھرا رکھے جس نے میری باتوں کو سنا اور پھر اسی طرح جس طرح اس نے میری باتوں کو سنا لوگوں تک پہنچا دیا۔‘‘
     حدیث شریف کا علم بھی باقاعدہ ایک سائنس ہے۔ اللہ تعالیٰ محدثین کی محنتوں اور قربانیوں کو قبول فرمائے ‘ انہوں نے ساری زندگی حدیث پڑھتے پڑھاتے گزار دی۔ حدیث کو سیکھنے کے لئے لمبے لمبے سفر کیے۔ اپنے اساتذہ کی خدمت میں کئی کئی سال حاضری دی اور ان سے حدیث کو پڑھا اور سیکھا۔
     حدیث کو پڑھنے کا شوق اس قدر تھاکہ ایک محدث بیان کرتے ہیں کہ مجھے ہریسہ کھانے کا بڑا شوق تھا۔ بازار میں ہریسہ بکنے کا جو وقت تھا وہی وقت حدیث پڑھنے کا تھا۔ سال ہا سال گزر گئے میں ہریسہ اس لئے نہیں خرید سکا کہ میں کسی صورت حدیث کا درس چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھا۔
    امام محمد بن اسماعیل بخاری امام المحدثین ہیں۔ ان کی تالیف کردہ حدیث کی مشہور کتاب صحیح بخاری کوعلمائے کرام نے قرآن پاک کے بعد سب سے صحیح کتاب قرار دیا ہے۔ احادیث کے علم کے لئے علمائے حدیث نے باقاعدہ شرائط اور اصول قائم کیے۔ اگر کسی نے اللہ کے رسولکی حدیث سنی ہے تو وہ کہاں سے سنی‘ کس سے سنی اس شخص کا نام کیا تھا۔ اس کا حافظہ کیسا تھا۔ وہ اللہ کے رسولکی حدیث بیان کر رہا ہے۔ اس کی شہرت کیسی تھی اس کا کریکٹر ‘ کہیں وہ جھوٹ تو نہیں بولتا تھا۔
    سبحان اللہ، محدثین کے قربان جائیے! انہوں نے ان سوالات کے جواب کے لئے ہر راوی ٔحدیث کی زندگیوں کو تلاش کر کے اسے کتابی صورت دے دی۔ پھر اس پر حکم لگایا کہ فلاں راوی ثقہ ہے فلاں ضعیف ہے۔ فلاں موضوع اور من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔
     میرے پیارے نبی کریمکا فرمان ہے کہ جس نے جان بوجھ کر مجھ سے کوئی ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کی تو وہ شخص اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
    جالیات غرب الدیرہ کی عمارت کئی منزلہ ہے۔ نچلی منزل پر3,2 بڑے ہال ہیں جن میں متعدد کلاس رومز بنے ہوئے ہیں۔ اس کے مدیر بندر بن عبدالعزیز المحیمید ہیں۔ حافظ عبدالوحید‘ فیصل علوی سمیت متعدد ساتھیوں نے ان سے ملاقات کی تو انہوں نے بڑی خوشی سے اس علمی مجلس کو منعقد کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ مہمانوں کے لئے کھانے کا بندوبست بھی کر دیا۔
    سعودی حکومت نے خدمت اسلام کے حوالے سے بہت سارے کام کیے ہیں۔ عصر حاضر میں اسلام کی جتنی خدمت سعودی عرب نے کی ہے شاید ہی کسی دوسری حکومت نے کی ہو۔مکاتب جالیات کی بے حد خدمات ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں200سے زیادہ مراکز میں ہر زندہ زبان کے مترجمین موجود ہیں ۔یہ داعی بڑی حکمت سے لوگوں کو صحیح عقیدہ کی دعوت دیتے ہیں۔
    میں نے بعض مراکز جالیت میںدیکھا ہے کہ فلپینی مسلمانوں کی تربیت کے لئے باقاعدہ کلاس رومز بنے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے رہنے کا انتظام ہے۔ جو نئے مسلمان ہوتے ہیں ان کو بعض اوقات ہفتہ بھر اس تربیتی کیمپ میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ انہیں ارکان اسلام بطور خاص نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔ان لوگوں کو عربی زبان سکھائی جاتی ہے۔ جالیات کے مراکز میں نو مسلموں کو کلمہ پڑھائے جانے کا اہتمام ہوتا ہے۔خواتین کے لئے بھی بعض مراکز میں تعلیم و تربیت کا بندوبست ہے۔ ا ن مکاتب جالیات سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جالیات غرب الدیرہ بھی ایسے مکاتب میں سے ایک ہے جو دین کی دعوت کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ ان کے مکاتب کا دورہ کیجیے تو اندازہ ہو تا ہے کہ یہ لوگ کس جدید طریقے اور بڑی مہارت سے لوگوں کو اسلام سے قریب کرتے ہیں۔ اس مکتب میں دعاۃ کی تعداد  11 ہے۔
    برادرم سلیم ساجد مدنی کا تعلق نیپال سے ہے۔ بڑی خوبصورت اردو بولتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف مکمل تعاون کیا بلکہ ہم سب کے استقبال کے لئے بھی اپنے دیگر ساتھیوں سمیت موجود تھے۔
    میں نے پروگرام کے انعقاد سے چند دن پہلے ہی اپنے دفتر میں اعلان کر دیاتھا کہ ہفتہ اور اتوار کو میں اور کوئی مصروفیت نہیں رکھوں گا۔ مجھے حدیث کا سماع کرنا ہے۔ ان شاء اللہ اس پروگرام میں بھر پور شرکت کروں گا۔ ہفتہ کے دن عصر کی نماز پڑھی تو میرا رخ گاڑی کی طرف تھا۔ میرے بیٹے عبدالغفار نے ا سٹیئرنگ سنبھال لیا اور ہم شارع عسیر کی طرف چل دیے ۔جی پی ایس صرف 12منٹ کا راستہ بتا رہا تھا۔
    جالیات غرب الدیرہ کی عمارت میری توقع سے زیادہ خوبصورت ہے۔ مہمانوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں میسر ہیں۔ یہاں پر دعاۃ کی تعداد خاصی بڑی ہے جو مختلف زبانوں میں لوگوں کو پڑھاتے ہیں۔ عصر کی نماز کے بعد شہر ریاض سے حدیث کے شائقین کھنچے چلے آ رہے تھے۔ آج میں بے حد خوش تھا ۔ خوبصورت ا سٹیج سمیت سارے انتظامات مکمل ہو چکے تھے۔ ہم سب کی نگاہیں گیٹ پر مرکوز تھیں کہ کب محدث العصر تشریف لاتے ہیں۔
    ساتھیوں کی بڑی تعداد نے بڑے جذباتی انداز میں علامہ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب کا استقبال کیا۔ جیسے ہی شیخ صاحب نے ا سٹیج پر اپنی کرسی سنبھالی عزیزم ریحان بن حافظ عبدالوحید کی خوبصورت آواز میں تلاوت قرآن پاک شروع ہوگئی۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض سلیم ساجد مدنی ادا کر رہے تھے۔ بڑے نپے تلے تمہیدی کلمات‘ ترہیب‘ تشکر ‘ مختصر سا تعارف ۔نیپالی ہونے کے باوجود خوبصورت اردو میں تقریر کا لطف آ گیا۔
    انہوں نے راقم الحروف کو پہلی حدیث پڑھنے کے لئے کہا  صدیوں سے محدثین کا یہ طریقہ چلا آ رہا ہے کہ پہلے شاگرد حدیث پڑھتا ہے پھر محدث اسی حدیث کے مشکل الفاظ کے معانی اور تشریح بیان کر تے ہیں۔
    میں نے مائیک سنبھالا۔جالیات غرب الدیرہ کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کرنے کے بعد کہا کہ آج کا دن ریاض کے اردو بولنے والوں کے لئے بڑا مبارک ہے کہ آج ہمارے درمیان محدث العصر شیخ عبداللہ ناصر رحمانی تشریف فرما ہیں۔ اس نشست میں ہم اللہ کے رسولکی احادیث سنیں گے۔ آج سے کوئی 20 سال قبل ریاض کی مسجد سلوی میں محترم ڈاکٹر فضل الہٰی حفظہ اللہ کے درس بخاری کا تذکرہ کیا کہ ہم نے ان دروس سے بہت فائدہ حاصل کیا۔
    حدیث کو پڑھنے کے لئے برادرم زین عرفان کا انتخاب تھا۔یہ جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ میں طالب علم ہیں۔ میں ان کا بھی اور دیگر ذمہ داران کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری خواہش کا احترام کیا۔ آج میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔میں مسرور تھا۔ دل باغ باغ تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا ،میں تو ایسے پروگراموں کے لئے مدتوں سے آرزو رکھتا ہوں ۔ میری تمنا تھی کہ میں بھی شیخ عبداللہ ناصر رحمانی کا شاگرد بن جاؤں۔ ان سے ہمیں حدیث کا اجازہ مل جائے۔ میں نے اپنی گفتگو میں اس تمنا کا اظہار کیا کہ آپ ہمیں اپنا شاگرد بنانے کاشرف بخشیں چنانچہ مجھے پہلی حدیث کو پڑھنے کی سعادت ملی۔ باقی احادیث برادرم زین عرفان نے پڑھیں۔
    شیخ عبداللہ ناصر رحمانی نے جب اپنی گفتگو کا آغازکیا تو ہال حدیث کے شائقین سے کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ ساتھ والے ہال میںکچھ اضافی کرسیوں کا بندوبست کر دیاگیاتھا تاکہ بعد میں آنے والے مہمان بیٹھ سکیں۔
    قارئینِ کرام ! حدیث پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ کوئی 4بجے شروع ہوا اور رات کے9 بجے تک جاری رہا۔ اس دوران مغرب کی نماز اور چائے کا وقفہ تھا۔ ہم نے نماز عشاء تاخیرسے پڑھی کہ یہ بھی اللہ کے رسولکی سنت ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔
    مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں جو بہترین اوقات گزارے ہیں، ان میں آج کے درس حدیث کے یہ اوقات بھی شامل ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ واقعی فرشتوں نے ہم طالب علموںکے لئے اپنے نورانی پروں کا سایہ کیا ہوا ہے۔ ایسی لذت‘ سکون اور مزا آیا کہ مدتوں یاد رہے گا۔ ذرا غور کیجیے ،جہاں اللہ اور اس کے رسولکی باتیں ہوں۔ اللہ کے رسولکی احادیث ہوں‘ محدثین کی خدمات کا تذکرہ ہو وہاں مزا کیسے نہیں آئے گا۔
    اللہ کے رسولنے فرمایا ہے کہ اگر تمہارا جنت کے باغیچوں کے پاس سے گزر ہو تو وہاں سے ضرور کچھ کھاؤ اور پیو۔ صحابہ نے پوچھا کہ جنت کے باغیچے کیا ہیں۔ آپ نے فرمایا:
    ’’وہ مجالس جہاں اللہ کا ذکر ہو۔ ‘‘
    اللہ کے رسول کی مراد ہے کہ تم بھی وہاں سے استفادہ کرو۔
    امام ابن تیمیہ کا ایک قول ہے کہ اگر اس زمین پر اللہ کی جنت کو دیکھنا ہے تو علماء کی مجالس کو دیکھ لو۔ وہ مجالس جہاں احادیث کا دورہ ہو،قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں گونجیں وہ اللہ تعالیٰ کی جنتیں ہیں، اور جب بھی ایسی مجالس قائم ہوں تو اللہ کے رسولکا امر ہے کہ ضرور وہاں سے کچھ کھاؤ پیو۔ مراد یہ ہے کہ ان سے استفادہ کرو۔
    ان مجالس کی عظمت کے بارے میں انہوں نے ایک واقعہ ذکر فرمایا جو میں قارئین کی دلچسپی کے لئے لکھے دیتا ہوں:
     محمد بن سلام البیکندیؒ رحمہ اللہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ تھے۔ ان کی وفات 225ہجری میں ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ محمد بن سلام باہر نکلے۔ ایک شخص کھڑا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ فلاں قبیلے کا جِن ہے۔ قبیلے کے سردار کا سلام پہنچایا اور کہا کہ میں آپ کو بتانے آیا ہوں کہ آپ کی علمی مجالس میں انسانوں سے کہیں زیادہ جنات شرکت کرتے ہیں۔
    شیخ عبداللہ ناصر رحمانی نے راقم کی اس خواہش کہ آپ ہمیں اپنا شاگرد بنائیں اور ہمیں حدیث کو روایت کرنے کی اجازت دیں تو انہوں نے فرمایا : میں کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ من مختصر صحیح البخاری للعلامہ ناصر الدین البانی ؒبطور اجازہ سند آپ کو دیتا ہوں۔ میں اجازت دیتا ہوں کہ آپ میری سند استعمال کرکے نبیکی حدیث کو روایت کر سکتے ہیں۔
    حاضرین مجلس نے اس پر تحسین کا اظہار فرمایا۔ میرے جیسے آدمی کے لئے ایسے مواقع پر آنسو ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شیخ عبداللہ اپنے تعلیمی سفر کے بارے میں فرما رہے تھے کہ میرے شیخ حاکم علی دہلوی ہیں۔ وہ مدرسہ رحمانیہ دہلی سے فارغ التحصیل تھے۔ دہلی سے بعض اہل حدیث تجار پاکستان بننے کے بعد کراچی منتقل ہو جاتے ہیں اور یہاں انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ کراچی میں مدرسہ رحمانیہ قائم کیا۔ میں وہاں سے ہی فارغ التحصیل ہوں۔ میں نے حاکم علی دہلویؒسے صحیح بخاری پڑھی ہے۔ انہوں نے دہلی کے مدرسہ رحمانیہ میں مولانا عبیداللہ رحمانی سے تلمذ کیا جن کے استاد کا نام مولانا عبدالرحمن مبارک پوری تھا۔ یہ وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے سنن ترمذی کی مشہور زمانہ شرح تحفۃ الاحوذی لکھی ہے۔ آج بھی علمائے کرام اس سے استفادہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ شیخ عبدالرحمن مبارک پوری ؒشیخ الکل فی الکل مولانا سید نذیر محدث دہلوی کے شاگرد رشید تھے۔
    قارئین کرام! ہندوستان میں صدیوں کے بعد جس شخصیت نے حدیث رسول پڑھانے کا بیڑا اٹھایا وہ سید نذیر حسین محدث دہلوی تھے۔ یہ وہ عظیم شخصیت تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے حدیث کی نشر و اشاعت کا وہ کام لیا کہ آج پاکستان کے جتنے بھی علمائے اہل حدیث ہیں وہ بالواسطہ میاں نذیر حسین کے شاگرد ہیں۔
    اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں اور شیخ عبداللہ ناصر رحمانی کی اس علمی مجلس کے مزید نکات اور واقعات بیان کروں، مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کو مختصر طور پر شیخ میاں نذیر حسین محدث دہلوی کا  تعارف کروا دوں ۔
(جاری ہے)
 

شیئر: