سعودی اخبارالشرق الاوسط میں شائع ہونیوالے کالم بعنوان ’’ راہول گاندھی کے ساتھ ہندوستانی چیلنج‘‘کا ترجمہ پیش خدمت ہے
راہول گاندھی کے ساتھ ہندوستانی چیلنج
ایاد ابوشقرا - - - - الشرق الاوسط
عرب دنیا میں لاینحل مسائل اور آزمائشیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے کسی بین الاقوامی مسئلے پر گفت و شنید کرتے وقت ایسا لگتا ہے گویا ہم اپنے مسائل سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ہندوستان میں آنیوالے ایام میں جو کچھ ہونیوالا ہے وہ عرب اور مسلم دنیا کو درپیش چیلنجوں کا اٹوٹ حصہ ہے۔ میں یہ سطریں کانگریس پارٹی کی قیادت کی باگ ڈور راہول گاندھی کے حوالے کرنے کی مناسبت سے تحریر کررہا ہوں ۔ کانگریس ہندوستان کی وہ پارٹی ہے جس نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کیلئے جدو جہد آزادی کی قیادت کی تھی۔
اس واقعہ کی اہمیت اس تناظر میں غیر معمولی ہوگئی ہے کہ مذہبی تشدد نہ صرف پاکستان میں بڑھ رہا ہے بلکہ خود ہندوستان میں بھی مذہبی تشدد شدت اختیار کرنے لگا ہے۔موجودہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت مذہبی اور قومی تشدد کے سامنے تاریخی جماعت کانگریس کی مقبولیت محدو د ہوئی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مودی جس نے اپنی مقبولیت کا قلعہ فرقہ وارانہ پالیسی کی بنیاد پر استوار کیا ہے وہ اُس ریاست کے رہنما مانے جاتے ہیں جہاں مہاتما گاندھی پیدا ہوئے تھے۔
1947ء میں آزاد ہونیوالا ہندوستان ’’سیاسی اسلام‘‘کی آزمائش کا پہلا میدان بنا ۔ہندوستان کی آزادی نے چیلنج دیا کہ کیا سیاسی اسلام تیسری دنیا کے ملکوں میں قائم ہونیوالے جدید سیاسی اداروںکے ساتھ پر امن بقائے باہم کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔
بر صغیر ہند میں فلسطینی المیے کی شروعات اور اسرائیلی ریاست کے قیام سے ایک سال پہلے مذہبی ریاست اور تکثیری معاشرے میں سے کسی ایک کے انتخاب کا تاریخی موقع سامنے آیا تھا۔ایک طبقہ پُر امید تھا کہ نسلی ، مذہبی اور لسانی رکاوٹوں کے باوجود ہندوستان پر امن طریقے سے ریاستی نظام چلانے میں کامیاب ثابت ہوگا۔ دوسری جانب بہت سارے مسلمانوں نے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم اقلیت کثیر مذہبی ، نسلی و لسانی ماحول میں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔
مسلمان اُس وقت منقسم ہوگئے ،آزادی کی جدو جہد کی قیادت کرنیوالی ہندوستان کی قومی تحریک میں دراڑ پڑ گئی۔
مشکل فیصلے نے متعدد سوالات کو جنم دیا۔مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناح نے الگ مسلم ریاست کے قیام کا نعرہ دیا ۔ دوسری جانب مہاتما گاندھی، جواہر لال نہروہندوستان کے دیگر مسلم رہنماؤں مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے مثالی دانشوروں کو یہ مطالبہ اپنے خوابوں کے منافی نظر آیا۔
1947ء میں جو ہونا تھا وہ ہوا ۔ ہندوستان بھی آزاد ہوا ،پاکستان بھی خود مختار ریاست کے طور پر قائم ہوا۔پاکستان 2حصوں پر مشتمل تھا ، ایک مشرقی پاکستان جہاں بنگالی اکثریت میں تھے، دوسرا مغربی پاکستان جہاں سب سے زیادہ پنجابی پھر سندھی ، پٹھان ، بلوچ اور ہندوستان سے ہجرت کرنیوالے مہاجر آباد تھے۔
ہندوستان سے پاکستان کی علیحدگی دوستانہ ماحول میں نہیں ہوئی ۔ یہ جدوجہد آزادی کے رفقاء کے درمیان بنیادی اختلاف کا نتیجہ تھی۔آبادی کا تبادلہ ہوا ، بڑے پیمانے پر قتل عام کے واقعات رونما ہوئے۔ تقسیم نے پاکستان ، ہندوستان دونوں ملکوں میں انتہا پسند جنم دیئے ، لاکھوں لوگ تقسیم کی نذر ہوگئے۔مثالی رہنما گاندھی 30جنوری 1938ء کو ایک انتہاپسند ہندوکے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ قاتل کا الزام تھا کہ مہاتما گاندھی مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے پے درپے ہندوؤں کے حقوق سے دستبردار ہوتے چلے جارہے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان دونوں نے 2مختلف جہتوں میں سفر کیا۔ پاکستان نے سرد جنگ کے ماحول میں سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اختیار کی پھر چین سے خاص تعلق پیدا کیا۔ ہندوستان نے ناوابستہ تحریک، کامن ویلتھ اور افروایشین ریاستوں کی قیادت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی۔ ہندوستان نے نسلی و لسانی پیچیدگیوں کے باوجود جمہوری نظام کو اپنایا۔ ہندوستان میں 80فیصد ہندوہیں اسکے باوجود بی جے پی 31فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہے۔
پاکستان 1971ء میں غیر منصوبہ بند تقسیم کے باعث مشرقی پاکستان سے محروم ہوگیا۔ ہندوستان کے ساتھ کشمیر پر جھگڑا مسلسل جاری ہے۔ہندوستان نے جمہوریت ، استحکام اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی۔ بحرانوں کی بھرمار کے باعث تاریخی قائدین منظر نامے سے غائب ہوگئے۔ کانگریس اپنی چمک دمک گنوا بیٹھی ۔ مذہبی و نسلی انتہا پسندی نے صورتحال کا فائدہ اٹھایا۔
اگر راہول گاندھی کامیاب ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ خطرناک علاقائی و بین الاقوامی مہم جوئیوں کا سلسلہ بند ہوجائے اور مذہب کے نام سے جوابی انتہاپسندی کا سلسلہ دم توڑ دے۔ بابری مسجد ، انڈونیشیاء کے جزیرے بالی کے دھماکے، روہنگیا مسلمانوں کا المیہ ظاہر کررہا ہے کہ ایشیا انتہا پسندی سے دور نہیں۔