22دسمبر 2017ء جمعہ کو شائع ہونیوالے سعودی جریدے البلاد اورالریاض کے اداریے کا ترجمہ پیش خدمت ہے
تیسرا یوم بیعت نئے عزائم باندھنے کا دن۔۔۔۔۔۔۔۔ البلاد
ان دنوں سعودی عر ب میں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے برسراقتدار آنے کی تیسری سالگرہ منائی جارہی ہے ۔ تیسرے یوم بیعت کا جشن ایسے ماحول میں منایا جارہا ہے جبکہ پورے ملک میں ہر طرف امن و امان کا دور دورہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قیادت راشدہ اورو فادار سعودی عوام کے درمیان ہم آہنگی اور ہمدمی و ہمسازی کے طفیل ہماراملک ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کرتا چلا جارہا ہے۔
خوشی کے محرکات بے شمار ہیں۔ہر دن کوئی نہ کوئی ایسا قصہ ، ایسی کہانی، ایسی کارکردگی یا ایسا کارنامہ سامنے آجاتا ہے جس پر فخر کئے بنا نہیں رہا جاسکتا۔کبھی کبھار کوئی انصاف پسند ایسی شہادت ریکارڈ پر لے آتا ہے جسے سن کر دل جھومنے لگتا ہے۔ وطن عزیز کی کرم فرمائی ، سعودی قیادت کی بامقصد مہم اور روز افزوں مشکلات والی دنیا کے دریا کو عبور کرانے والے رہنما کی رہنمائی، نہ جانے کتنے اسباب ہیں جو ہمیں خوشی اور فخر کے احساس سے سرشار کررہے ہیں۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان ایک طرح سے سعودی شہریوں کی محبت ہر طرف سے سمیٹے ہوئے ہیں، اس باب میں کوئی ان کا حریف نہیں۔ وہ ایسے انسانیت نواز باپ ہیں جس نے ہم وطنوں کو سرآنکھوں پر بٹھا رکھا ہے ۔ان کے یہاںوطن عزیزکا امن و امان زبانی دعوؤں کا نہیں عملی اقدامات کا طلبگار ہے۔ وہ ایسے رہنما ہیں جس نے مایوسی پھیلانے والوں اور تاریکی کے پرچارکوں کے سارے خواب سبوتاژ کردیئے ۔
شاہ سلمان اِس محبت اور اِس وفاداری کے بجا طور پر مستحق ہیں ۔کیسے نہ ہوں کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں ۔ دکھ درد دور کرنے کیلئے مطلوبہ سہولتیں اور آسانیا ں مہیا کرتے ہیں۔اپنے دروازے ہر شہری کیلئے ہمہ وقت کھلے رکھتے ہیں ۔ عزم محکم اور عمل پیہم کی علامت سلمان ہم سب سے اسی قدرومنزلت اور اسی محبت و مودت کے مستحق ہیں۔وہ وطن عزیز کی سلامتی اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کی خاطر بدعنوانی کی بیخ کنی میں بھی لگے ہوئے ہیں۔
تیسرے یوم بیعت کے جشن میں بڑے ، چھوٹے ، ملازم ، عہدیدار سب برابر کے شریک ہیں۔ تیسرا یوم بیعت ہمیں اپنی قیادت راشدہ پر فخر اور انمول وطن سے گہری وابستگی کے اظہار کا احساس دے رہا ہے۔ہمارا تعلق سچا ہے ، حرمین شریفین کی سرزمین مبارک سرزمین ہے۔ اس سے رشتہ سچا پکا ہی مطلوب ہے۔اس موقع پر ہر شہری زبان حال سے پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ اپنے کردار سے دستبردار نہیں ہوگااور ان کا ملک عالمی امن و استحکام کی بحالی میں قائدانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔
* * * * * *
ایران کے احتساب کی گھڑی آپہنچی!۔۔۔۔۔۔۔۔الریاض
خمینی کے انقلاب کے بعد ایرانی نظام نے کبھی بھی جارحانہ پالیسی ترک نہیں کی۔ ایرانی نظام نے عرب و مسلم ممالک کے اندرونی امور میں مداخلت اور اپنے بحران عربوں کو برآمد کرنے کی مہم کا سلسلہ جاری و ساری رکھا۔ اس حوالے سے بہت سارے حقائق موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تہرن کا حکمراں طبقہ اعتدال پسند ہر ملک سے نفرت اور عداوت میں پیش پیش ہے اور وہ جگہ جگہ نفرت و عداوت کے کلچر کے پرچار میں لگا ہوا ہے۔ تہران کے حکمراں بڑے سے بڑے رقبے پر ملاؤں کی شہنشاہیت کی بساط بچھانے کی ناکام کوششوں میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔
8ویں عشرے کے شروع میں خطے کے ممالک خمینی اور ان کے پیروکاروں کے خونریز سلوک سے دوچار ہوئے ۔ دہشتگردی کے واقعات کئے گئے۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات پر حملے کرائے گئے۔ حاجیوں اور زیارت کیلئے آنیوالوں کو خوفزدہ کیا گیا۔ طیارے اغوا کئے گئے ۔ رہائشی عمارتوں میں دھماکے کرائے گئے۔ سفارتکاروں اور شہریوں کو قتل کرایا گیا۔ ان پر حملے کرائے گئے ۔ ان ساری ہنگامہ آرائیوں کا جواب برد باری اور ضبط و تحمل سے دیا گیا۔ اس امید پرسب کچھ برداشت کیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ ایران کے حکمرانوں کو ہوش آجائے اور وہ یہ سمجھ لیں کہ ان کی اس قسم کی سرگرمیاں انہیں بدی کے محورمیں شامل کئے رکھیں گی اور بالآخر انہیں پوری دنیا کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑیگا۔
ایران نے عراق،شام ، لبنان اور یمن میں جنگجو عناصر پھیلا رکھے ہیں۔ انہیں انارکی و تخریب کاری کیلئے خلیج کے عرب ملکوں میں ذمہ داریاں تفویض کررکھی ہیں۔ اعتدال پسند عرب ممالک بالآخر ایرانی غرور سے نمٹنے کیلئے صف بستہ ہوگئے۔ انہوں نے بحرین میں صفوی منصوبے سے نمٹنے کیلئے الجزیرہ شیلڈ فورس قائم کی۔ علاوہ ازیں یمن کو مکمل طور پر ملاؤں کی گود میں جانے سے روکنے کیلئے فیصلہ کن آندھی پروگرام نافذ کیا گیا۔ عراق بالآخر اپنے عرب تشخص کی طرف واپس آنے لگا ہے۔
خطے میں ایران کے فرقہ وارانہ منصوبے سے نمٹنے کا سب سے بڑا بوجھ سعودی عرب کو اٹھانا پڑا۔ مملکت نے خمینی کی لگائی ہوئی آگ بجھائی ، خمینی کے جانشینوں نے مشر ق وسطیٰ میں پھر جو کچھ سرگرمیاں انجام دیں انہیں بھی قابو کیا۔ اب جو کچھ کرنا ہے وہ بین الاقوامی گروپ کو کرنا ہے کیونکہ ایران نہ صرف یہ کہ خطے کے امن و استحکام کو مسلسل خطرات پیدا کررہا ہے بلکہ عالمی امن و امان کے مسائل بھی تخلیق کررہا ہے۔
اب مذمت کی قراردادوں سے بات نہیں بنے گی۔ امن و سلامتی اور تعمیر و ترقی کے علمبردار دنیا میں قانون مخالف ریاست کا نمونہ پیش کرنے والے نظام حکومت کے ناخن کاٹنے ہی پڑیں گے۔