Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قانون اندھا ہے؟

  خلیل احمد نینی تال والا
بزرگوں سے سنا تھا کہ  قانون اندھا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے حالات واقعات گواہوں کے بیانات ہی کی روشنی میں عدلیہ فیصلے کرتی ہے ۔اس پر کسی کو کوئی اعتراض ہر گز نہیں ہونا چاہیے ۔ایک فیصلہ ملک کی تقدیر بد ل سکتا ہے ۔اچھی بھی اور بُری بھی قومیں صرف اچھی امیدوں سے جیتی ہیں۔ اگر ان کو صحیح رہبر مل جائے تب ہی یہ ممکن ہے، پھر انصاف مل سکتا ہے ۔
گزشتہ سال  ایک ملک میں ایک  امیرزادے نے غصہ میں آکر اپنے ایک دوست کو قتل کردیا ۔مقتول کے لواحقین انصاف کے کئے عدالت گئے۔ انہیں باوجو د  امیر زادے کے لواحقین کی طاقت کا اندازہ تھا مگر فیصلہ قتل کے بدلے قتل ہی ہوا ۔لواحقینِ قاتل مقتول کے لواحقین سے معافی اور دیت کی رقم جو بھی وہ مانگیں ادا کرنے کیلئے وہ تیار تھے مگر  اس ملک کا ایک عجیب رواج ہے، وہ یا تو اللہ کے ڈر سے معاف کرتے ہیں یا پھر اپنے مزاج کے مطابق جو  ان کا حق ہے، بدلہ لیتے ہیں ۔
مقتول کے لواحقین نے قاتل کو معاف کرنے سے انکار کردیا ۔اب دیکھئے یہاں  حکومتی فرمان بھی قاضی کے فیصلے کے سامنے کچھ نہیں کرسکتا چنانچہ تمام قانونی کارروائیوں کے بعد قتل کیلئے ایک دن مقرر ہوجاتاہے ۔قاتل کے لواحقین اپنی کوششیں جاری رکھتے ہیں۔ مقتول کے لواحقین کو منانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور وہ آخری گھڑی بھی آجاتی ہے جب  قاتل کو قتل کرنے کیلئے جلاد قتل گاہ میں لایا جاتا ہے ۔
قتل سے پہلے آخری مرتبہ قاتل کی طرف سے دیت اور معافی کی اپیل کی جاتی ہے ۔قدرت نے مقتول کے لواحقین کا دل نرم کردیا اور وہ قاتل کو معاف کردیتے ہیں بغیر کوئی دیت کے ،قاتل شرمندہ ہوکر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور مقتول کے باپ کے پائوں پر گر کر معافی بھی مانگتا ہے ۔
اسکے برعکس ہمارے ملک میں ایک نوجوان اپنی ہی محلے کی لڑکی کو چھیڑ تا ہے اور اُس کا غیرت مند بھائی اُس کو منع کرتا ہے۔ دونوں ایک ہی محلے کے علاوہ ایک ہی سندھی قبیلوں کی پڑھی لکھی قوموں کے افراد ہونے کی باوجود اپنی اپنی روایات کو دولت اور طاقت کے نشے میں  اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے اپنے دوستوں کی مدد سے لڑکی کے بھائی کو   قتل کردیتے ہیں ۔
ایک طرف دولت تو دوسری طرف قانون کا رکھوالاڈی ایس پی۔ ٹکرائوتو ہونا تھا ،پھر آج کا میڈیا ۔پہلے تو مک مکا کا معاملہ چلا۔جب لڑکی والے نہیں مانے تو دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ٹی وی اور اخبارات دونوں نے مل کر دولت والوں کو للکارا ،پولیس بھی بے بس تھی ،کیس کو دبانے کے ہر ہر حربے اپنائے گئے۔
 چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سوموٹو ایکشن لیا اور پھر عدالت نے فیصلہ سُنایا ۔قوم حیرت میں پڑ گئی کہ یہ کیسا قاتل ہے جو سزائے موت پر Vیعنی فتح کا نشان بناکر پولیس کی گاڑی میں چلاجاتا ہے ۔یہ کیسا جیالا ہے کہ اُس کونہ قتل پر پشیمانی اور نہ لڑکی کے چھیڑنے پر ۔
آگے کی کہانی اب قتل کے بدلے دیت کیلئے قاتل کے طاقتور لواحقین مقتول کے خاندان پر زور ڈالتے ہیں۔ دھونس اور دھمکی بھی اور دولت کا لالچ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔آخر کار پھر ایک دن نامعلوم ذرائع  کام آگئے۔ مقتول کے خاندان والے راضی نامہ پر تیار ہوگئے مگر عدلیہ نے اس معافی  نامہ کو تسلیم نہیں کیا ۔
اُس ایف آئی آر میں دہشتگردی کی بھی شق شامل تھی اور چیف جسٹس بھی ریٹائرڈ نہیں ہوئے تھے ۔قاتل کو واپس جیل بھیج دیا گیا ۔وہ نوجوان قاتل اتنا بیمار پڑا کہ جیل کے ڈاکٹروں نے اُسے جیل میں رکھنے کے بجائے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہسپتال منتقل کردیا۔اُس کے شب وروز ہسپتال میں شاہانہ گزرنے لگے ۔
اب وہ صرف وقت کا قیدی تھا۔ ہر کوئی اُس سے ملنے آتا تھا ۔گھر سے کھانے وہ بھی سندھی روایات کے مطابق نہ صرف قاتل کیلئے بلکہ اُس کے دوست اور احباب اور نگران پولیس والوں کے وارے نیارے رہے ۔
پھر کہتے ہیں کہ وقت اپنا اثر خود کھودیتا ہے ۔دہشت گردی کی شق بھی ہٹ گئی۔ مقتول کے لواحقین بھی اپنی رقم لے کر دوسرے ملک سدھار گئے ۔قانونی کارروائیاں پوری ہوئیں اور پھر قاتل کو دیت کے عوض رہائی مل گئی۔
یہاں بھی ایک منظر دیکھنے میں ملا ۔ رہائی سے قبل سند ھ  کے بڑے بڑے لوگوں کی بے نمبری گاڑیاں جب ہسپتال میں پہنچیں تو قوم کو معلوم ہوا کہ یہاں بھی ایک گمنام وی وی  آئی پی بیمار ((Patientموجود ہے جس کو رہائی کی مبارک باد دینے اتنے بڑے بڑے لوگ آئے ہیں جن کاتعلق خود حکومتی وزراء اور بیوروکریٹس سے تھا ۔
جب قاتل اپنے کمرے سے باہر نکلا تو اپنے قتل پر شرمساراورنادم  ہونے کے بجائے فخریہ انداز میں وکٹری سے بھی ایک قدم آگے درمیانی انگلی لہرا کر یہ کہنا چاہا کہ دولت ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ کرلو جو کرنا چاہتے ہو کرلو ۔
ہم ہی اس ملک کے حکمران ہیں۔  ہم سے ٹکرائو گے تو پچھتائو گے۔ایسے ہی دولت مندوں کی بگڑی اولادیں آئے دن ہم کراچی شہر کے پڑھے لکھے باشندے بے بسی کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں ۔اور صرف کسمساکر خاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ قانون اندھا ہے اور دولت اُس کی روشنی ہے ۔سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ قاتل کے باپ کے 60،سترکروڑ روپے خرچ ہوگئے اپنے اس قاتل لڑکے کو بچانے پر۔آگے آگے دیکھئے یہ " معصوم "کل کیا گل کھلائے گا ۔
مقتول کے لواحقین کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی دیت کی رقم نہیں لی۔ دوستوں کے کہنے پر معاف کردیا ہے ۔اس بات پر کون یقین کرے گا اور اگر تعلق بھی پولیس والوں سے ہو۔اللہ جانے کون بشر ہے ۔کیسے کیسے پتھر دل لوگ اس بستی میں  دندناتے پھر رہے ہیں مگر ہم صرف صدر ٹرمپ کو کوسنے میں لگے ہوئے ہیں۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں