Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھر کو نظر لگ گئی یا معاشرے کی خودغرضی نے تباہ کردیا

کسی کودھکا دینا آسان ہوتا ہے مگر ہاتھ تھاک کر اٹھانا مشکل ، کیا ایک بیٹا بن کر رضیہ باجی کا سہارا بننے کی کوشش کرکے میں نے غلط کام کیا؟
* * *مصطفیٰ   حبیب صدیقی* * * 
(آج میں جو کہانی سنانے جارہا ہوں وہ کچھ طویل ہوگی ،شروعات کئی برس پہلے سے ہے جبکہ اختتام شاید کہانی ختم ہونے پر بھی نہ ہو،اس سچی کہانی میں خوشحالی،نظر ،حسن کا زعم اور پھر تباہی سب کچھ ہے۔اس حقیقی کہانی کا کافی حد تک میں چشم دید گواہ بھی ہوں ،معاشرے کی ایک تصویر جیسے آپ کچھ بھی نام دیدیں اسی معاشرے کو دکھانے کی کوشش کررہا ہوں۔آپ کی رائے اور تجاویز کا منتظر رہوں گا۔مصطفی([email protected]یاکال اور واٹس ایپ00923212699629)

کراچی کے نارتھ ناظم آباد اور گلبرگ جیسے نسبتاً پوش علاقوں کے درمیان چھوٹی سی کالونی کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں ہزاروں کہانیاں تھیں۔ان کہانیوں کے کردار وں میں رونق بھائی ،نوراچاچا،حاجی جی بہت نمایاں رہے تاہم ساتھ ہی کچھ خواتین ایسی تھیں جو کالونی کی جان ہوتی تھیں۔ان ہی خواتین میں ایک رضیہ باجی تھیں۔اصل میں یہ کہانی ان ہی کی ہے۔
    رضیہ باجی اور ان کے شوہر حمید بھائی کی عمر میں تقریباً25سال کا فرق تھا۔کالونی کی ان تین گلیوں میں خاص طور پر خواتین کی گفتگو میں دلچسپ موضوع اس جوڑے کی عمر تھی۔رضیہ باجی حسین اور خوبصورت تھیں ،جبکہ حمید بھائی عمر میں بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ شکل و صورت کے بھی واجبی سے تھے۔شادی کیوں ہوئی اس کی وجہ بھی کوئی نرالی نہیں،رضیہ باجی کی والدہ ایرانی نژاد تھیں تاہم پاکستان میں پلی بڑھیں تھی۔ان کے پہلے شوہر سے رضیہ باجی کے علاوہ ایک بیٹاتھا تاہم وہ طلاق دے کر چلاگیا جس کے بعد دوسری شادی ہوئی جس سے مزید4بچے ہوئے۔
    رضیہ باجی کو ان کی ماں نے گھر سے جلد ازجلد نکالنے کیلئے ان کی عمر سے دوگنی عمر کے شخص سے بیاہ دیا تھا۔حمید بھائی رضیہ باجی کو رانی بناکر رکھتے تھے۔کالونی میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا جہاں رضیہ باجی کے گھر کی طرح کے کھانے پک سکتے ہو ں اور شاید ہی کوئی ایسی عورت ہوگی جو رضیہ باجی کے جیسے مہنگے کپڑے پہن سکتی ہو۔زندگی کے دن یوں ہی گزرتے گئے اور رضیہ باجی کو اللہ نے 4بیٹے اور2بیٹیاں دیں۔تمام بچے بہترین اسکول میں پڑھتے تھے۔گھر کے باہر اس وقت گاڑی کھڑی رہتی تھی جب کسی کسی گھر میں موٹرسائیکل ہوا کرتی تھی۔پوری کالونی میں اس گھر کی دھوم تھی،عید وں پر اس گھر کی تیاری بہت سے لوگوں کو حسد میں مبتلا کردیتی تھی۔مجھے یاد ہے کہ جب رضیہ باجی کے بچے خوب سج دھج کرنکلتے تو ان کی ادائیں دیکھنے والی ہوتی تھیں،وہ بچے تھے معصوم تھے اس لیے ان میں کوئی تکبر یا دکھاوا نہیں ہوتا تھا بس بچپنا تھا اپنے اچھے لباس کو دکھاتے پھرتے،چمکتی دمکتی سینڈلز ،کھنکتی چوڑیوں اور رنگین عینک لگائے وہ ایسے اتراتے تھے جیسے کہیں کے شہزادے اور شہزادی ہوں۔بچے تو بچے خودر ضیہ باجی بھی خوب سجھ دھج کر نکلتیں اور پھر تقریباً آدھی کالونی میں چکر لگاکر لوگوں کو جتلاتیں کہ دیکھوں میرا شوہر کتنا امیر ہے۔رضیہ باجی کے الفاظ یہ نہ ہوتے نا ہی ان میں تکبر تھا مگر جب خدا حسن دیتا ہے تو نزاکت آہی جاتی ہے کہ مصداق وہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتی تھیں۔
    کالونی میں کئی گھر اور خاص طور پر خواتین تھیں جن کی آنکھوں میں یہ گھر کھٹکتا تھا۔اوپر ی دل سے سب مل کر رہتے تھے مگرجہاں چار عورتیں الگ بیٹھتیں وہاں رضیہ باجی اور ان کے شوہر کی عمر میں طویل فرق کا تذکرہ ضرور ہوتا ۔ساتھ ہی شوہر کی جانب سے رضیہ باجی کے خوب نخرے اٹھانے کی ایک ہی وجہ بیان کی جاتی کہ بھئی’’جب بڈھے کو جوان بیوی ملے گی تو نخرے تو اٹھا ئے گا‘‘۔
    زندگی کے دن یوں ہی گزررہے تھے کہ ایک دن رضیہ باجی کے شوہر حمید بھائی کو دل کا دورہ پڑتا ہے ساتھ ہی فالج کا بھی معمولی سے حملہ ہوتا ہے وہ بستر پر جاپڑتے ہیں،گھر میں جو جمع پونجی تھی وہ ختم ہونے لگتی ہے مجبوراً رضیہ باجی کو ایک اسپتا ل میں نرس کی ملازمت کرنی پڑتی ہے۔بس یہیں سے گھر کی تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔رضیہ باجی جب کمانے لگتی ہیں تو حمید بھائی بے فکر ہوجاتے ہیں،کچھ ہی ماہ میں ان کی عادت بدل جاتی ہے ویسے بھی عمر زیادہ تھی اس لئے بھی اب کام سے گھبرانے لگے تھے پھر جب رضیہ باجی کی تنخواہ کا سہارا مل گیا تو بالکل ہی ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ گئے۔رضیہ باجی اپنے شوہر کے ساتھ مخلص اور وفادار ہوتی ہیں بچوں کی پرورش کے ساتھ گھر کے خرچ کا بھی پورا بوجھ اٹھائے ہوتی ہیں،وہ زیادہ تر رات کی شفٹ میں ڈیوٹی دیتیں تاکہ صبح جلد گھر جاکر دن بھر کے کام نمٹا سکیں۔حمیدبھائی بھی اپنے بچوں کا بہت خیال رکھتے تھے ۔صبح اٹھ کر ناشتہ بنانا اور پھر بچوں کو اسکول بھیجنا ان ہی کے ذمے تھا جس کی معترف رضیہ باجی بھی تھیں ۔
    بس وہ رات ہی قیامت کی رات تھی کہ رضیہ آپا کو اسپتال میں ایک نوجوان ملتا ہے ،وہ ان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ بہت حسین اور خوبصورت ہیں ،جوان ہیں کہاں بوڑھے شخص کے ساتھ اپنا وقت ضائع کررہی ہیں۔دوسری جانب گھر میں یہ حال ہوچکا ہوتا ہے کہ بڑی بیٹی اسکول جانے کے بجائے محلے کے ایک لڑکے کے ساتھ آنکھ مٹکیاں کرنے لگتی ہے جبکہ بڑا بیٹا اسکول کے بجائے ایک سیاسی جماعت کیلئے کام کرنے لگتا ہے۔رضیہ آپا کے گھر کو نظر لگ چکی ہوتی ہے۔
    دن ایسے ہی گزرتے رہتے ہیںکہ ایک دن معلوم ہوتا ہے کہ حمید بھائی نے کسی بات پر لڑائی کے دوران رضیہ آپا کو طلاق دیدی ہے جبکہ حمید بھائی کا کہنا تھاکہ میں نے طلاق نہیں دی۔فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ حمید بھائی اب گھر میں نہیں ر ہ سکتے لہٰذا وہ اپنے بستر کے ساتھ سارا دن گھر کے باہر چبوترے پر پڑے رہتے ،جب ضروری حاجت کیلئے جانا ہوتا تو رضیہ باجی اندر ہوجاتیں اوروہ چلے جاتے اور پھر وپس اپنے چبوترے پر پڑ جاتے۔کالونی میں وہ خواتین جو کل تک رضیہ آپا کے گھر میں ہر سو پھیلی آسودگی اور خوشحالی سے جل کر ان کو بڈھا شوہر ملنے کا طعنہ دیتی تھیں وہی اب رضیہ باجی پر بدترین الزامات عائد کررہی تھیں۔ادھر بدنصیبی کہ رضیہ آپا کا اپنا بیٹا جو گھر کا بڑ ا تھا وہ بھی ان کے خلاف ہوچکا تھا۔پھر ایک دن معلو م ہوا کہ رضیہ آپا کی ایک بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے ،مجھے اطلاع ملی صحافت میں ہونے کی وجہ سے مجھ سے رابطہ کیاگیا وہ لڑکی صبح تک واپس آگئی مگر معلو م ہوا کہ اب اس کی عزت اس کی نہیں رہی ۔اس لڑکے نے اس سے شادی کرلی اور وہ بغیر کسی جہیز اور ڈھول ڈھمکے کے گھر سے رخصت ہوگئی۔
    رضیہ آپا کا کہنا ہے کہ ان کے جوان بیٹے نے مسلح لڑکوں کے ساتھ آکر زبردستی ان کے شوہر حمید بھائی سے طلاق کے کاغذات پر دستخط کرائے اور پھر یہ دھمکی بھی دی کہ حمید بھائی کو غائب کرادیگا اور پھر وہی ہوا کہ ایک روز حمید بھائی اچانک لاپتہ ہوئے او ر 20سال گزرنے کے باوجود نہ مل سکے۔
    بڑے بیٹے نے شادی کی اور الگ ہوگیا جبکہ چھوٹا بیٹا بھی کہیں جاکر کام کرنے لگا۔رضیہ باجی کالونی کا گھر فروخت کرکے چلی گئیں اور پھر سنا کہ انہوںنے کسی سے شادی کرلی ۔پھر کالونی میں ان پر طرح طرح کے گندے الزامات لگنے لگے۔انہوں نے سب سے تعلق تو ڑلیا۔میں ان سے ملنا چاہتا تھا مگر کوئی ان کا پتہ نہ دیتا تھا حتیٰ کے ان کا بڑا بیٹا کالونی میں تھاوہ بھی ان کاپتہ نہ دیتا۔
    پھر کئی بر س بیت گئے کہ ایک مرتبہ سعودی عر ب سے پاکستان چھٹی آیا ہو ا تھا( میں 6سال سعودی عرب کے صحافتی ادارے میں رہا ہوں) کہ ایک جگہ ان سے ملاقات ہوگئی ،وہ بہت روئیں اور اپنا نمبر دیا مگر وہ نمبر میں محفوظ نہ رکھ سکا۔پھر ہر کسی سے نمبر مانگا مگر ہر ’’پاک‘‘ خاتون کو اپنے پاک دامنی پر حرف آنے کا خدشہ تھا اور کسی نے نمبر نہیں دیا۔میں اسی کالونی میں پلا بڑھا تھا اور جو لوگ کالونی میںرہے ہوں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے چھوٹے علاقوںمیں محلے دار رشتے داروں سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔سعودی عرب میں ہی ایک مرتبہ رضیہ باجی کی ایک بیٹی کا فون آیا اس نے کہیں سے میرا نمبر حاصل کیاتھا جس کے بعد میرا رابطہ بحال ہوا۔
    پاکستا ن واپس جانے کے بعد میں نے اس کہانی کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو ہر محلے دار نے منہ پھیر لیا جیسے میں 65سالہ رضیہ باجی کا نہیں بلکہ  16سالہ لڑکی کاپوچھ رہا ہوں۔کچھ میری ماں کی جیسی خواتین نے سمجھایا کہ بیٹا وہ بڑی خراب عورت ہے اس کا نا پوچھ۔میں نے سوال کیا کہ جب آپ لوگ اس عورت کی آسودہ حال زندگی میں سارا سارا دن ا س کے گھر بیٹھ کر کالونی بھر کی غیبتیں کرتیں اور چائے  بسکٹ کے مزے لیتیں تب وہ خراب نہیں تھی؟میرا سوال تھا کہ اگر واقعی کالونی ایک گھر کی مانند تھی تو پھر کیا اگر ایک عورت معاشرتی بے انصافیوں ،معاشی مجبوریوں یا تنہائی کی وجہ سے اگر واقعی غلط راستے پر چل پڑی تھی تو کیا یہ ان خواتین کا فرض نہیں تھا کہ اس کا سہارا بنتیں،کیاکالونی کے ان ’’چودھریو ں‘‘ کا کوئی فرض نہیں بنتا تھا جو رضیہ باجی کے چبوترے پر بیٹھے حمید بھائی کے گھر کی چائے پیتے اور خوب مزے اڑاتے تھے۔
    پورے محلے میں مجھے کسی نے رضیہ باجی کا نمبر نہیں دیا حتیٰ کے ان کی بیٹی نے بھی انکار کردیا تاہم پھر ایک دن رضیہ باجی کا فون آگیا اور پھر سب کی مخالفت کے باوجود ان سے ملنے پہنچ گیا۔رضیہ باجی نے ویسے ہی میرے ماتھے پر بوسہ دیا جیسے وہ میرے بچپن میں جب میں اسکول سے آتا تھا تو دیا کرتی تھیں۔ان کی باتوں میں سچائی تھی ساتھ ہی خوف بھی تھا کہ نجانے میں یقین کررہا ہوں یانہیں۔
    میں نے سب باتوںکا تجزیہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچاکہ معاشرے کی بے رخی نے رضیہ باجی کو مشکل ترین فیصلے کرنے پر مجبور کردیا۔وہ تنہا عورت تھیں ،مجبور تھیں ،لڑکا بھی سہارا بننے کے بجائے دشمن بن چکا تھا اگر وہ کہیں کسی درجے میں ڈگمگا بھی گئیں تھیں تو کیا اس کی سزا عمر بھر کا قطع تعلق ہے؟کیا معاشرہ گرتے ہوئوں کو اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا ؟گرتے ہوئے کو دھکا دینا آسان ہوتا ہے مگر ہاتھ تھام کر اٹھانا مشکل ۔ہم سب کمزور ہیں ،ہم سب گناہ گا ر ہے ،اللہ رب العزت نے پردے ڈالے ہوئے ہیں ورنہ اگر ہمارے جرائم بے نقاب ہوجائیں تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہونگے۔میرا خیال ہے کہ رضیہ باجی کے گھر کو نظر لگی ہے تاہم ساتھ ہی معاشرے کی خود غرضی اور نام نہاد پاک دامنی بھی ا ن کا گھر کھاگئی۔کیا ایک بیٹا بن کر رضیہ باجی کا سہارا بننے کی کوشش کرکے میں نے کوئی غلط کام کیا؟آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔

---------------------------------------------------------------------------
محترم قارئین !
    اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیںکہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔ ہم سے فون نمبر 00923212699629پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔
    ای میل:[email protected]

شیئر: