Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ 24 منٹ جوپاکستانی ٹیم پر بہت بھاری تھے

ہملٹن: چوتھے ون ڈے میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے مبصرین کا کہنا تھا کہ مہمان ٹیم نے اب تک اس دورے کی بہترین کرکٹ کھیلی۔ اظہر علی کو ڈراپ کرنا کافی مشکل اور حیران کن تھا ، لیکن اس سیاق و سباق میں یہ فیصلہ نہایت دانشمندی پہ مبنی تھا مگر اس فیصلے کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں پاکستان کو ایک اور ناقابل فہم فیصلہ کرنا پڑا۔فہیم اشرف نے شاید کبھی لسٹ اے، فرسٹ کلاس، ٹی ٹوئنٹی لیگز اور انٹرنیشنل کرکٹ میں اوپننگ نہیں کی۔ سوجس دلدل سے نکلنے کے لئے اظہر کو ڈراپ کیا گیا تھا ان کی عدم موجودگی میں بھی پاکستان اس دلدل سے نکل نہ پایا۔ انہوں نے کہا کہ بابر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنانا یوں درست نہ ہو گا کہ ویرات کوہلی بھی نئے گیند کے خلاف ہو بہو ایسی ہی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں جو آج کل بابر کو درپیش ہیں۔حارث سہیل کی شمولیت کا فیصلہ اگرچہ سیریز ہارنے کے بعد ہی کیا گیا لیکن یہ بالکل درست فیصلہ تھا۔ ان تمام پہلوو¿ں سے زیادہ خوش آئند بات یہ تھی کہ نہ صرف سرفراز کی فارم لوٹ آئی بلکہ حفیظ کے ساتھ انھوں نے ایک ایسی پارٹنرشپ قائم کی جس نے پوری ٹیم کو بھرپور اعتماد دیا۔اس کے بعد جب شاداب نے یکے بعد دیگرے کیوی ٹاپ آرڈر کے بخیے ادھیڑے تو ولیمسن کو اپنی تمام تر مہارت کے باوجود بیک فٹ پر جا نا پڑا لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ حسن علی کو نئی گیند سے بولنگ کروانے کا مقصد کیا تھا؟ ڈونیڈن میں ہم نے دیکھا کہ محمد عامر کے ساتھ فہیم اشرف نے اٹیک کیا وہ نہ صرف ایک دلچسپ پلان تھا بلکہ یہ کامیاب بھی ٹھہرا اور چند ہی گیندوں میں منرو ہمت ہار گئے۔ آج بھی سامنے وہی منرو تھے لیکن شاید فہیم اشرف اوپننگ کی تھکن سے چور تھے لہٰذا اٹیک ان کی بجائے حسن علی سے کروا دیا گیا۔اس اٹیک کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے پاور پلے میں ہی پلڑا کیویز کی جانب جھک گیا۔ بہرطور اس غلط فیصلے کی قیمت شاداب نے چکا ڈالی اور ڈیڑھ گھنٹے تک ولیمسن کو کریز میں پھنسائے بھی رکھا لیکن اس طرح کے لو اسکورنگ میچز میں ایک آدھ غلط چال ہی بازی پلٹ دیتی ہے۔حسن علی سے اٹیک کروانے کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ مڈل اوورز جہاں پرانے گیند کے ساتھ حسن علی نہایت موثر ثابت ہوتے ہیں، وہاں حارث سہیل کا کوٹہ پورا کروایا گیا۔ حارث سہیل نے بہت اچھی بولنگ کی لیکن میچ کے اس مرحلے میں صرف سکور روکنا ہی کافی نہیں تھا۔ پاکستان کو میچ میں زندہ رہنے کے لئے متواتر وکٹوں کی ضرورت تھی۔ 35ویں اوور تک نیوزی لینڈ اور کین ولیمسن جس بند گلی میں داخل ہو چکے تھے،وہ پاکستان کے لیے کوئی اجنبی رستہ نہیں تھا۔ ڈھائی سال پہلے تک مصباح کی ون ڈے ٹیم بھی اسی گلی میں بھٹکتی رہی ۔ سرفراز کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک تھا کہ جس رفتار سے مطلوبہ رن ریٹ بڑھتا جا رہا تھا، وہاں ولیمسن کی وکٹ سے ہی بساط پاکستان کے حق میں پلٹ جانا تھی۔لیکن اس حقیقت سے سبھی لا علم تھے کہ یہ کہ گرینڈ ہوم کا دن ہوگا۔ولیمسن کے جانے کے بعد اگلے 24 منٹ پاکستان پہ نہایت بھاری ثابت ہوئے۔ ان 24 منٹوں میں 74 رنز بنے۔ گیند بار بار کراوڈ میں گئی۔ میچ کے بہترین بولر شاداب خان بدترین بولر بنے، عامر قابل رحم ٹھہرے، رومان بالکل بے بس نظر آئے،حارث سہیل کی اکانومی گڑبڑا گئی،سرفراز کے اعصاب ٹوٹ گئے اور پاکستان کی امیدیں ڈوب گئیں۔پاکستانی ٹیم بہت اچھی کرکٹ کھیل کر بھی فتح کے ذائقے سے نا آشنا رہی کہ کل صرف گرینڈہوم کا دن تھا۔

شیئر: