Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ٹرمپ القدس فیصلے پر نظر ثانی کرینگے؟

 ڈاکٹر عبداللہ مناع ۔ الجزیرہ
5دسمبر 2017 ءکو امریکی صدر ٹرمپ نے ٹی وی پروگرام میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مشرقی القدس منتقل کرنے کا اعلان کرکے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔عالمی برادری نے امریکی صد رکے فیصلے کو مسترد کردیا۔ مسترد کرنے کا باعث عربوں یا مسلمانوں یا فلسطینیوں سے محبت نہیں بلکہ مقبوضہ علاقوں کے تحفظ سے متعلق جنیوا معاہدے تھے۔ یہ معاہدے دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا بھر کے ممالک نے کئے تھے۔ ان کے بموجب قابض ریاست جنگ کے بل پر ہتھیائی جانے والی زمین کی شناخت تبدیل کرنے کی مجاز نہیں ہوتی۔ القدس عرب شہر ہے، اسرائیل قابض ریاست ہے۔ وہ اس کی عرب شناخت کو تبدیل کرکے یہودی شناخت دینے کی مجاز نہیں۔ مشرقی القدس پر یہ اصول لاگو ہوتا ہے۔ 
جہاںتک مغربی القدس کا تعلق ہے تو وہ 1947ءکے بعد مشرقی القدس کا توسیعی حصے کے تحت معرض وجود میں آیا۔ صدر ٹرمپ امریکی سفارتخانہ مغربی القدس منتقل کرنے کا اعلان کرسکتے تھے۔ ایسا کرتے تو نہ عرب اسکی مخالفت کرتے نہ ہی مسلمان اسکے خلاف احتجاج کرتے اور نہ ہی دنیا کے دیگر ممالک امریکی صدر کے فیصلے کو مسترد کرنے کا کوئی اہتمام کرتے۔ امریکی صدر اپنے ملک کے سفارتخانے کو مغربی القدس منتقل کرنے کا اعلان کرکے سب کو اپنا حامی بناسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیںکیا۔
دراصل وہ اسرائیل یا یہودیوں کو سابقہ خدمات کے بل یا مستقبل میں ان سے وصول کی جانے والی خدمات کے بل ادا کرنا چاہتے تھے۔ ممکن ہے وہ 2021ءمیں وائٹ ہاﺅس کیلئے دوبارہ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے اس قسم کے اقدام پر آمادہ ہوئے ہوں۔امریکی رائے دہندگان کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں۔سفارتخانہ منتقل ہویا نہ ہو اُنہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ اسکا ثبوت یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ کے مذکورہ اعلان کے بعد وائٹ ہاﺅس کے سامنے یا واشنگٹن کی سڑکوں یا میدانوں میں انکے حق میں کوئی جلوس نہیں نکالاگیا۔ 
امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد مذمت کو ویٹو کرکے بے شک معطل کردیاتاہم جنرل اسمبلی میں اپنے خلاف پاس ہونے والی قرارداد کے اجراءکو نہ روک سکے جہاں 137ممالک نے انکی قرارداد کی مخالفت میں وو ٹ دیا جبکہ 7ایسے ممالک نے جن کا نام تک کبھی سننے میں نہیں آتا انکی حمایت میں ووٹ دیئے۔
اگر عربوں اور مسلمانوںکی مخالفت اور پے درپے میٹنگوں ، کانفرنسوں کی قراردادوں سے امریکہ پر کوئی فرق نہیں پڑا تو یورپی یونین میں شامل ممالک کی مخالفت نے امریکہ کو ہلا دیا۔ اسرائیل یورپی یونین کی مخالفت سے الجھن میں پڑگیا اور اسرائیل کو اس سے صدمہ پہنچا۔یورپی یونین کی مخالفت ہی امریکی صدر کو اپنے فیصلے پر عمل درآمد کو منجمد کرنے یا اس سے پسپائی اختیار کرنے یا اسے دو ریاستی حل کے اصول کے مطابق مسئلہ فلسطین کے تصفیے تک ملتوی کرنے پر آمادہ کرسکتی ہے۔ بعض یورپی ممالک جن میں سویڈن سرفہرست ہے نے فلسطینی ریاست کو تسلیم بھی کرلیا ہے۔
اس بحران کا تابناک پہلو یہ ہے کہ جلد بازی میں امریکی صدر کے نامعقول فیصلے نے امریکی صحافت کو بھی اپنے صدر کے خلاف بولنے پر مجبور کردیا۔ واشنگٹن ٹائمز نے امریکہ کے نائب صدر کے دورہ مشرق وسطیٰ کے التوا کی خبر دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ القدس سے متعلق امریکی اقدام تمام بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔ فلسطین- اسرائیل تنازع مذاکرات کے ذریعے طے ہونا ضروری ہے۔ خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام اور مشرقی القدس کو اسکا دارالحکومت تسلیم کرناواجب ہے۔ امریکی اسکالر اور ماہرین کی سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے نے مسئلہ فلسطین کے پائدار اور مبنی برانصاف حل کی رسائی کیلئے جاری تمام کوششوں کو سبوتاژ کردیا۔
صدر ٹرمپ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ تو اخبارات پڑھتے ہیں اور نہ ہی اخبارات کو عزت دیتے ہیں۔ وہ تو صحافیوں کو جاسوس اور غدار قراردیئے ہوئے ہیں۔ انکا کہنایہ ہے کہ صحافی حقیقت کے متلاشی اور اس کے خادم نہیں ہوتے۔
بہرحال اگر صدر ٹرمپ اپنے فیصلے پر عمل درآمدکیلئے پرعزم ہوں تب بھی امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مشرقی القدس منتقل نہیں ہوگا۔ اسکے لئے کم از کم ایک سے سال لگے گا۔اس دوران ممکن ہے کہ ٹرمپ اپنے فیصلے سے پسپائی پر آمادہ ہوجائیں اور اپنے فیصلے پر نظرثانی کرلیں، امریکہ اور اسکے عوام کو مشکل سے نجات دلادیں۔ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کی دشمنی سے انہیں بچالیں۔ عربوں کو بھی مارچ میں ہونیوالی سربراہ کانفرنس میں سابقہ کانفرنسوں کے ڈھیلے ڈھالے فیصلوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ انہیں ایسے اقدام کرنے ہونگے جن پر امریکہ انکی عزت پر آمادہ ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر:

متعلقہ خبریں