Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جبل النور

مشعل السدیری ۔ الشرق الاوسط
سطح سمندر سے642میٹر کی بلندی پر مکہ مکرمہ پر سایہ فگن جبل نور سے لاپروائی برتنے کا شکوہ چند برس قبل مجھ سے ایک صاحب نے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جبل نور کے ساتھ انتہائی لاپروائی برتی جارہی ہے۔ شروع میں خیال گزرا کہ وہ مبالغے سے کام لے رہا ہوگا۔ پھر میں نے اسکے دعوے کی حقیقت دریافت کرنے کیلئے جبل نور جانے کا ارادہ کرلیا۔سوچ یہ تھی کہ ”شنیدہ کے بود مانند دیدہ“(سنا ہوا دیکھے ہوئے کے مانند کبھی نہیں ہوسکتا)۔
میں جبل نور گیا ۔وہاں جو کچھ دیکھا المناک تھا۔ رنج و غم کی لہر میرے سراپے پر طاری ہوگئی۔ میں نے اس وقت عکاظ میں ایک مضمون تحریرکرکے اپنے مشاہدات قلمبند کئے۔ اس امید پر یہ سب کچھ کیا کہ ممکن ہے کہ ہمارے عہدیدار اس تاریخی مقام کا حق اد ا کرنے کی کوشش کرینگے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ بعض پہاڑ احترام کا حق رکھتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل احدکے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ ہم سے پیار کرتا ہے اور ہم اس سے پیار کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم جبل نور سے کیوں نہ پیار کریں کہ یہی وہ پہاڑ ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم منصب ِ نبوت پر سرفرازہونے سے قبل مناجات کیلئے جایا کرتے تھے۔ یہی وہ پہاڑ ہے جہاں قرآن کریم کی پہلی آیت نازل ہوئی۔ کیا پے درپے آنے والے بڑے بڑ ے بجٹ جاری کرنے کے باوجود ہم اس پہاڑ کو اسکا حق نہیں دے سکتے؟ کیا ہمیں یہ بات زیب دیتی ہے کہ ہم اسے جبل نور بھی کہیں اور اس پر گہری تاریکی کے بادل چھائے رکھیں؟
میرا خیال تھا کہ مکہ میونسپلٹی میری صدا پر کان دھرے گی مگر المدینہ اخبار کے کالم نگار طلال القشقیری کا کالم پڑھ کر مجھے لگا کہ میری معروضات صدا بصحرا ثابت ہوئیں۔ اب تک جبل نور کے اطراف غیر منظم محلے بسے ہوئے ہیں۔ آج تک جبل نور کی چوٹی پر جانے کیلئے چیئر لفٹ کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ بوڑھے زائرین، خواتین اور بچے پرانے طرز کی سیڑھیاں استعمال کرکے ہی جبل نور پہنچ پاتے ہیں۔ وہاں اقامہ و تجارت قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ہر سُو دیکھے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں تربیت یافتہ رہنماﺅں کی غیر موجودگی میں خرافات پھیلانے والے لوگ گھومتے پھرتے ہیں۔
میں ایک بار پھر مکہ میونسلپٹی کے سامنے اپنی یہ درخواست رکھ رہا ہوں کہ وہ اس معتبر و محترم پہاڑ پر توجہ دیں۔ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ وہاں کباڑ کے ڈھیر ہوں، آنے والوں میں سے کوئی بھی جو چاہے وہاں لکھے اور چلتا بنے۔ جبل نور کے پتھر اور چٹانیں لاپروائی کا شکوہ زبان حال سے کرتی نظر آرہی ہیں۔ میںلہجے کی تلخی کیلئے معذرت خواہ ہوں تاہم میں نے جو کچھ تحریر کیا وہ دل کی آوازتھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: