شہزاد اعظم۔جدہ
پاکستانی معاشرہ، مشرقی ہے۔ ہمارے ہاں مشرق کی تمام روایات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام ہمارا خاصہ ہے۔ پہلی دنیا میں سٹھیاجانیوالوں کو ”اولڈ ہا¶س“ بھیج دیا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں جو جتنا عمر رسیدہ ہوتا ہے اس کی عزت و احترام میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ خاندان بھر پر حکمرانی کرتا ہے۔ خواہ وہ صحیح کو غلط اور غلط کو درست کیوں نہ قرار دیدے، کم از کم اس کی موجودگی میں کوئی اعتراض نہیں کرتا۔یہ ہماری قدیم روایات میں شامل ہے ۔
دبے الفاظ میں یہ کہنا بے جا نہیں کہ چھوٹے ہمیشہ غلط نہیں کہتے۔ اسی طرح کسی بھی خاندان کے بزرگوں کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں، ہمیشہ درست ہی کہتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کا دور تو جدید ہے اور ان کی سوچ کا انداز قدیم۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بعض ”بڑے“ اپنی اولاد کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت سے آراستہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ وہی گھسے پٹے ”قواعد و ضوابط“ نسل نو کے اذہان میں ٹھونستے رہتے ہیں۔ انجام کار لڑکے توگھر سے باہر کے ماحول کے اثرات قبول کر کے کچھ نہ کچھ تبدیل ہو جاتے ہیںمگر ہمارے ہاں کی لڑکیاں چونکہ لڑکوں کی طرح گھرسے باہر سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنے کو معیوب سمجھتی ہیں اس لئے ان پر گھریلو تربیت کے اثرات زیادہ غالب رہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں لڑکیاں جیسے ہی شعور کی دنیا میں قدم رکھتی ہیں انہیں یہ سنانا شروع کر دیا جاتا ہے کہ شوہر کے گھر میں لڑکی کی ڈولی جاتی ہے اور جنازہ نکلتا ہے۔ گویا بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔جب اس لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو وہ رخصتی کے وقت یہ سوچ کر دھاڑیں مار مار کر رونا چاہتی ہے کہ میں اس گھر جا رہی ہوں جہاں سے میرا جنازہ نکلے گا مگروہ دھاڑیں نہیں مارسکتی کیونکہ اسے اس حقیقت کا شدید احساس ہوتا ہے کہ اگر آنسو سے اس کا میک اپ خراب ہو گیا تو تمام ”حقائق“آشکار ہو جائیں گے اور ممکن ہے کہ پھر اسے اس گھر میں داخلے سے ہی روک دیا جائے۔
پہلی دنیا کے ممالک میں ایسا رواج قطعی نہیں۔ وہاں کوئی ماں یا باپ اپنی بیٹی کو یہ نہیں کہتا کہ جس گھر میں تمہاری ڈولی جا رہی ہے وہاں سے تمہارا تابوت ہی نکلے گا۔ اس کی کئی وجوہ ہیں ۔ ان میں سے ایک وجہ تو یہ ہے کہ انکی دلہن ڈولی میں نہیں جاتی بلکہ عموماًٹم ٹم میں براجمان ہو کر اپنے شوہر کے دولت کدے میں قدم رنجاں کرتی ہے۔ اسی طرح رخصتی کے وقت اول تو انہیں رونا ہی نہیں آتا ان کی جگہ ان کادولہا گاہے روتا نظر آ سکتا ہے یا ”مخمصے کا شکار“ ہونے کے باعث اس کی بولتی بند ہو سکتی ہے۔بالفرض محال اگر دلہن کو کوئی بات یاد آجائے اور اسکی آنکھیں نم ہو جائیں تو وہ صرف آنسو ہی نہیں بہاتی بلکہ دھاڑیں مارنا شروع کر دیتی ہے۔انکے اس ”دھاڑنے“ میں میک اپ آڑے نہیں آتا کیونکہ اگر آنسو سے میک اپ بہہ جائے تو انیس بیس کا ہی فرق پڑتا ہے۔پھر وہ دلہن اگررخصت ہو کرسیدھی شوہر کے گھرچلی بھی جائے تو وہ بغیر تابوت کسی بھی وقت اس گھر کو خیرباد کہہ سکتی ہے۔ اس کے لئے اس پر کوئی پابندی نہیں ہوتی بلکہ وہ چاہے تو شوہر کو ہی گھر سے نکال دے۔
ہمارے معاشرے میںلڑکی کو شعور کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد سے لے کر شادی تک ایک اور جملہ بھی بے تحاشا سننا پڑتا ہے کہ شوہر کے دل میں گھر کرنے یا اس کے دل تک پہنچنے کا راستہ معدے سے ہو کر گزرتا ہے گویا اگرشوہر کو اپنی مٹھی میں لینا ہو تواسے لذیذ پکوانوں کی مار ماریں۔ یہی نہیں ہمارے ہاں اسکولوں میں بھی لڑکیوں کو خانہ داری کی تربیت دی جاتی ہے جس کے دوران ان کی استانیاں اور ماسٹر ان سے وضع وضع کے پکوان تیار کروا تے ہیں اور خود پیٹ بھر کرکھاتے ہیں۔ وہ جس کسی کا پکوان لذیذ ترین قرار دیتے ہیں وہ خوش ہو جاتی ہے کہ میں مستقبل میں اپنے شوہر کی چہیتی بیوی بن کے رہ سکوں گی۔اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، اس پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
اکثر گھروں میں ہم نے دیکھا ہے کہ گھر گرہستن ، نہایت لذیذ کھانے تیار کرتی ہے، اس کے باوجود اس کا شوہر دفتر سے گھر آکرکھانا کھاتے ہوئے کھانے کی میز پر ہی بیوی سے توتکار شروع کر دیتا ہے۔ بیوی مزید لذیذ کھانا پکاتی ہے کہ شاید اب اسے شوہر کے دل تک پہنچنے کا راستہ مل جائے ۔ شوہر پھر گھر آتا ہے ، دو کی جگہ 4روٹیاں کھاتا ہے اور لڑائی جھگڑا بھی کرتا ہے۔انجام یہ ہوتا ہے کہ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد شوہر کی توند بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ وہ لذیذ سے لذیذ پکوانوں کا شوقین ہوتا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی توند بھی ترقی کرتی جاتی ہے۔شوہر تو توندیل ہوجاتا ہے مگر بیوی اس کے دل میں گھر کرنا تو دور کی بات، ”پلاٹ“ بھی نہیں خرید پاتی جبکہ بعض اوقات کسی کے سپنوں کا محل اس کے شوہر کے دل میں آباد ہو چکا ہوتا ہے۔ ہم نے توبیوی کے ہاتھ کے لذیذ پکوان کھانے کے عادی توندیل شوہروں کو اپنی بیوی کو طلاق دیتے بھی دیکھا ہے۔
ماہرین ”گھر باریات“ کا کہنا ہے کہ تیسری دنیا میں شوہروں کے اسمارٹ ہونے کا سبب یہی ہے کہ ان کی ” پارٹنر“ شوہر کے معدے کا خیال رکھنے کی پابند نہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ ان کے لئے شوہر کوئی”پائدار“ شے نہیں ہوتی جسے تمام زندگی ساتھ رکھا جائے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ اگر شوہر کے دل تک پہنچنا ”ناگزیر“ ہو جائے تو اس کے لئے کونسا راستہ اختیار کرنا چاہئیے۔ اسکا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہاں کے” شو“ ہوں یا ”زن“دونوں ہی اسمارٹ یعنی خدوخال کے لحاظ سے انتہائی متناسب رہتے ہیں۔