Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی سیاحت: قابل فخر پہاڑ، حسین نظارے

چوں چاں تندوری چکن ایوبیہ کی خاص ڈش ہے،رایتے کے150روپے دھوکہ سے وصول کرنے کی کوشش واجد نے ناکام بنادی،میں سوچتا رہا کہ یہ بچے کتنے جفاکش ہیں، یہاں کے لوگ اور ایک ہماری پرآسائش زندگی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(بیرون ملک مقیم پاکستانی وہندوستانی جب برسوں بعد اپنے وطن کی سیر کرتے ہیں تووہ شکر،محبت اور وطن پر فخر سے سرشارہوتے ہیں،اپنے ملک سے دور سعودی عرب کے شہرریاض میں کئی برس گزارنے والے خالد مسعو د نے اپنے خاندان کے ساتھ کراچی سے شمالی علاقہ جات گھومنے کا فیصلہ کیا ،وہ خاص طور پر اسی مقصدکیلئے پاکستان گئے ۔خالدمسعود نے پاکستان کے خوبصورت مناظر قلم بند کرلیے اور ہمیں ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کااحسا س دلایا۔آپ بھی اگر اپنے وطن کی سیر کے بار ے میں کچھ لکھنا چاہتے ہیں ہمیں ضرور بھیجیں ۔ہم سے رابطہ کےلئے واٹس ایپ یا کال کریں00923212699629یا [email protected]
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خالد مسعود ۔ کراچی
 پہلی قسط 
سعودی عرب میں 30سال سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد خیال آیا کیوں نہ اپنے وطن کی سیر کی جائے۔اس مقصد کےلئے اپنی بیٹی داماد کو امریکہ سے کراچی بلوایا اور خو د بھی پہنچ گیا۔پورے خاندان کے ساتھ پاکستا ن کی سیر بہت ہی یادگار رہی۔ہم نے اپنے سفر کا آغا ز کراچی سے بذریعہ ٹرین کیا۔ ہماری ٹرین رات 8بجے مارگلہ اسٹیشن پہنچی۔ اسٹیشن پر واجد ہمیں لینے کیلئے موجود تھے۔ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے میرے عزیز دوست طیب نثار جنہوں نے ڈرائیور اور گائیڈ کا انتظام کردیا تھا۔ واجد ڈرائیور گائیڈ بھی تھے ایک ذمہ دار اور نفیس انسان، جب ہم مارگلہ اسٹیشن پر اترے تو بجلی غائب تھی اور ہمیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ باہر کا راستہ کس طرف ہے۔ وہ تو بھلا ہو نئی ٹیکنالوجی کا واجد نے میرے موبائل پر میری رہنمائی کی۔ بہت تپاک سے ملے اور فوراً ہی ہمارا سامان اٹھایا اور گاڑی میں ڈالا اور ہم سب کو لیکر اسلام آباد ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے جسکاا نتظام انہوں نے پہلے سے کررکھا تھا۔ جب ہم ہوٹل پہنچے تو رات کے 9 بج چکے تھے۔ سامان ہمارے ہوٹل کے کمرے تک پہنچا کر واجدمخاطب ہوئے کہ آپ لوگ ایک گھنٹے تک تروتازہ ہوجائیں پھر میں آپ لوگوں کو رات کے کھانے کیلئے اسلام آباد فوڈ کورٹ لیکر چلونگا۔ واجد نے ہم سب کے دل کی بات کردی تھی۔ ہم سب مقررہ وقت میں تیار ہوگئے۔ واجد بھی حسب وعدہ پہنچ گئے۔ جب ہم فوڈ کورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم نے تھوڑا سا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ پتہ چلا کہ آگے راستہ بند ہے۔معلوم ہوا کہ وہاں کوئی وی آئی پی موومنٹ ہورہی ہے۔ واجد نے بتایا کہ یہ آئے دن کی پریشانی رہتی ہے۔ ہم بھی ان حالات کے عادی ہوچکے ہیں اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ واجد نے کہا کسی قریبی ہوٹل میں ڈنر کرلیں۔ اسلئے کہ راستے کب کھلیں گے کوئی پتہ نہیں۔ رات کے 11بجنے والے تھے اسلئے ہم لوگوں نے قریبی ہوٹل میں اپنی بھوک مٹائی اورفوڈ کوٹ کی حسرت لئے ہوٹل واپس آگئے۔ واجد نے دوسری صبح 9بجے تک تیار رہنے کو کہا کہ وہ مری ایوبیہ اور نتھیا گلی لیکر جائیں گے۔
واجد حسب وعدہ صبح پہنچ گئے۔ ہم سب بھی تیار تھے۔سامان گاڑی میں رکھا اور مری کی جانب روانہ ہوگئے۔اسلام آباد سے گزرتے ہوئے پہاڑوں کے دامن میں ہریالی سے ڈھکا اسلام آباد ہمیں بہت حسین لگا ۔جیسے جیسے گاڑی بلندی کی طرف چڑھتی گئی ہمیں ٹھنڈی ہواﺅں سے ایک مسحور کن تازگی کا احساس بڑھتا گیا شاید اسلئے کہ ہم کراچی سے اسلام آباد تک گرمی کا سامنا کرتے آئے تھے۔ ان ٹھنڈی ہواﺅں نے ہماری بھوک میں اور بھی اضافہ کردیا تھا کیونکہ ہم نے ناشتہ نہیں کیا تھا۔ ہم نے ساجد سے اسکا اظہار کیا تو پتہ چلا کہ مری اب آنے والا ہے۔ وہیں ناشتہ کرینگے۔ مری کی سڑکیں اب بہت اچھی ہوگئی ہیں جبکہ آج سے 35سال پہلے یہ بہت دشوار گزار ہوا کرتا تھا۔ اسلئے مسافت میں وقت لگتا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہم مری پہنچ گئے۔ واجد نے ریستوران پر گاڑی روک دی ہم نے وہاں ڈٹ کر پراٹھا، انڈا اور چنے کا ناشتہ کیا جو بہت لذیذ تھا پھر ہم نے چائے پی اور اگلی منزل ایوبیہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہم سب قدرت کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اونچے اونچے تناور درخت ، ہرے بھرے پہاڑ اور دوسری طرف گہری کھائی ، ہلکی ہلکی بارش بھی ہوگئی تھی ۔ بادل بھی زمین پر اتر آئے تھے۔ ایسے میں گاڑی رواں دواں تھی ۔ ایک عجیب اور حسین منظر تھا جو لفظو ںمیں بیان نہیں کیا جاسکتا صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ 
تقریباً ایک بجے ایوبیہ پہنچ گئے۔گاڑی پارک کرتے ہی ہمیں آس پاس ریستوران کے کارندوں نے گھیر لیا۔کوئی چوں چاں تندوری چکن کی لذتوں کی بات کررہاہے تو کوئی اپنے چکن کڑاہی کی تعریف بیان کرنے میں لگا تھا۔ واجد نے مجھے بتایا کہ کسی بھی ڈش کا آرڈر دینے سے پہلے اسکی قیمت ضرور معلوم کرلیں ورنہ کھانے کے بعد یہ بہت قیمت وصول کرتے ہیں۔ پھر اس وقت آپ انکی منہ مانگی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ واجد نے ہمیں مشورہ دیا کہ آپ کھانے کا آرڈر دیکر بچوں کیساتھ چیئر کراسنگ پر بیٹھنے کیلئے چلے جائیں، واپسی پر کھانا تیار ہوگا۔ ہم نے چوںچاں تندوری چکن جو وہاں کی اسپیشل ڈش تھی اور چکن کڑاہی کا آرڈر دیدیا۔ چیئر لفٹ کا راستہ چڑھائی پر تھا۔ بچے تو باآسانی چڑھ گئے مگر ہم میاں بیوی کی تو سانس پھول گئی۔ کئی جگہ رک کر سانس کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے مگر احساس ہوا کہ اب ہم بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں۔کسی طرح ہم بلندی پر پہنچے تو پتہ چلا کہ ایک گھنٹے کے بعد چیئر لفٹ چلنا شروع ہوگی۔ اس درمیان ہم اوپر ہی گھومتے رہے اور قدرت کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس طرح وقت کا پتہ بھی نہیں چلا اور ٹکٹ گھر کی کھڑکی کھل گئی۔ ہم نے فوراًٹکٹ لیا اور چیئر لفٹ میں بیٹھ گئے جو ہمیں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک لیکر گئی۔ درمیانی راستے میں خلا اور نیچے کھڈ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ بچے اس تجربے سے بہت محظوظ ہوئے جب ہم نیچے واپس آئے تو کھانا تیار تھا۔ ویٹر فوراً کھانا لیکر آگیا ساتھ میں بہت چھوٹے پیالے میں سب کیلئے الگ الگ رائتہ بھی تھا۔ واجد نے مجھ سے پوچھا کیا آپ نے رائتہ کا بھی آرڈر دیا ہے تو میں نے کہاکہ نہیں یہ تو کھانے کے ساتھ کمپلی مینٹری ہوتی ہے واجد نے بتایا کہ صاحب یہ ایک چھوٹے پیالے کے 150 وصول کرلے گا۔ اس نے ویٹر سے کہا کہ یہ واپس لے جاﺅ۔ اس طرح واجد نے ہمیں فضول خرچی سے بچالیا اور میں سوچتا رہا کہ یہ توسراسر دھوکہ دہی ہے۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہماری اگلی منزل نتھیا گلی تھی ہم بل کھاتے پہاڑی راستوں سے گزرتے اور جگہ جگہ خوبصورت آبشاروں کو دیکھتے ہوئے مغرب سے پہلے نتھیا گلی پہنچ گئے۔ ہوٹل میں سامان رکھا ،چائے پی کر کچھ دیر آرام کیا پھر نتھیا گلی کی سیر کو نکل گئے۔ مختصر بازار لیکن ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ میں اپنے ساتھ گرم کپڑے لیکر نہیں گیا تھا جیسے جیسے سورج غروب ہونے کو آیا سردی بڑھتی جارہی تھی۔ بیگم نے کہا کہ سوئٹر یہیں سے خرید لیں کیونکہ آگے سردی اور زیادہ ہوگی۔ واقعی یہ سوئٹر اگلی منزل پر بہت کام آیا۔ اس مارکیٹ میں ہمیں کئی جگہ پکوڑے اور جلیبی کی دکانیں بھی نظر آئیں۔ ہم نے گرما گرم جلیبی اور پکوڑے خریدے۔ اندھیرا ہو چلا تھا سب نے کہا ہوٹل چلتے ہیں وہیں ہم جلیبی پکوڑے سے لطف اندوز ہونگے۔ نتھیا گلی بہت خوبصورت ، دلکش اور ایک پرفضا مقام ہے دل چاہا کچھ دن اور ٹھہروں لیکن وقت کی مجبوری تھی۔ اگلی صبح ہمیں پروگرام کے مطابق کاغان، ناران اور جھیل سیف الملوک جانا تھا۔ صبح ہوتے ہی ہم گاڑی میں سوار ہوگئے۔ واجد نے ہمیں بتایا کہ ہم ایبٹ آباد ، مانسہرہ اور بالا کوٹ ہوتے ہوئے کاغان پہنچیں گے۔ نتھیا گلی کی خوبصورت وادی سے ہم روانہ ہوئے۔ صبح کا وقت تھا ۔ ہر طرف قدرت کے حسین مناظر پورے وجود میں ایک سرور سماتا ہوا محسوس ہوا۔ ایک ایسی کیفیت جسے بیان کرنے کیلئے الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔ راستے میں پھول جیسے کومل خوبصورت بچے بستہ اٹھائے دور پہاڑوں پر بنے گھر، دشوار گزار راستے، ان راستوں سے گزر کر مین روڈ پر بچے اسکول کی بس کے انتظار میں کھڑے نظر آئے۔
میں سوچتا رہا کہ یہ بچے کتنے جفاکش ہیں۔ یہاں کے لوگ اور ایک ہماری پرآسائش زندگی..... پہاڑی سلسلے ختم ہوتے ہی ہم ایبٹ آباد شہر میں داخل ہوگئے چونکہ اسکول اور دفتر کا وقت تھا اس لئے شہر میں بے تحاشا ٹریفک تھی۔ اسلئے شہر سے گزرنے میں ہمیں وقت لگا۔ مانسہرہ ہوتے ہوئے ہم بالاکوٹ پہنچے تو ہمیں یاد آیا کہ یہ تو وہی شہر ہے جسے 2005ءمیں بھیانک زلزلے نے تہہ و بالا کردیا تھا اور ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ 
زلزلے کے آثار اب بھی موجود تھے۔ پہاڑوں میں دراڑیں صاف نظر آئیں۔ صبح کے 11بج چکے تھے۔ ہم لوگوں نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا بالاکوٹ میں رک کر ہم نے ناشتہ کیا اور پھر کاغان کی طرف روانہ ہوگئے۔ وادی کاغان ایک حسین وادی ہے۔ جیسے ہی ہم کاغان میں داخل ہوئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے ہمیں مسحور کردیا۔ حد نگاہ تک سرسبز پہاڑ ، کہیں دور تک برفیلے پہاڑ کی چوٹی بھی نظر آئی۔ پہاڑوں کا سینہ چیر کر آبشار کی شکل میں بہتا ہوا پانی۔ یہ مناظر راستے میں کئی جگہ نظر آئے۔ پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے جو گھاٹی میں نہر کی شکل میں روانی سے بہتا رہتا ہے۔ بہتے ہوئے پانی کی مدھم آواز کانوں کو بہت بھلی لگی۔ حسین مناظر نے آنکھوں کو ٹھنڈک کا ایک احساس دیا کہ میرے بچے بے اختیار بول پڑے، بابا! ہمارا پاکستان اتنا پیارا ہے ؟ اللہ نے پاکستان کو ساری نعمتوں سے نوازا ہے اگر کمی ہے تو صرف دیانتدار لیڈر شپ کی۔
ہم کاغان ہوتے ہوئے 3بجے سہ پہر ناران پہنچ گئے۔ ہوٹل میں سامان رکھا اور جھیل سیف الملوک جانے کی تیاری کرنے لگے کیونکہ راستے اتنے دشوار گزار ہیں کہ مغرب سے پہلے واپس آنا بھی ضروری تھا۔جھیل سیف الملوک کیلئے صرف جیپ جاتی ہے جو سیزن یعنی جون جولائی میں آنے جانے کیلئے 5ہزار روپے لیتی ہے اور ویسے تو 2سے ڈھائی ہزار روپے لیتے ہیں۔ ہم لوگ جھیل سیف الملوک کیلئے جیپ پر سوار ہوگئے۔ جیپ بلند پہاڑوں پر کچے و تنگ راستوں پر نوکیلے پتھروں سے گزرتے ہوئے جھیل سیف الملوک پہنچی۔ہمیں واجد نے بتایا کہ اسی راستے پر چند دن پہلے گلیشیئر گرنے سے کراچی کی 3خواتین جاں بحق ہوگئی تھیں۔ بلاشبہ راستہ بہت ہی پر خطر اور دشوار گزار تھا۔ ایسے پرخطرراستے پر جیپ چلانا ہمارے پاکستانی ڈرائیوروں کا کمال ہے (باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: