عبدالرحمان الراشد ۔ الشرق الاوسط
یمن کے دائمی دارالحکومت صنعاءمیں حوثی باغیوں کی شکست کے آثار جیسے ہی نظر آنے شروع ہوئے ویسے ہی یمن کے عارضی دارالحکومت عدن میں معرکوں کے شعلے بھڑکنے لگے۔
جنوبی یمن کے من گھڑت معرکے یوں ہی اچانک شرو ع نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان طاقتوں کی تشویش کا برملا اظہار ہیں جو شمالی یمن میں جنگ کو دائمی شکل دینے اور آئینی حکومت کی بحالی کے منصوبے کی ناکامی کا جوا کھیل رہی ہیں جنہیں یقین ہے کہ انہیں جنوبی یمن میں اپنی ریاست مفت میں ہاتھ آجائیگی۔
شمالی یمن میں باغیو ںکی پے درپے شکست کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ جب سے حوثی باغیوں نے اپنے سابق حلیف علی عبداللہ صالح کی حمایت سے ہاتھ دھویا ہے او رانہیں قتل کیا ہے تب سے علی صالح کے اکثر پیرو کار حوثیوں کے مخالف ہوگئے۔
مخالف علاقائی طاقتوں مثال کے طور پر قطر نے جنوبی یمن کی علیحدگی پسند ملیشیاﺅں کو حکومت کیخلاف بھڑکانے او ران کے ذہنو ں میں مخالفت کی آگ کے شعلے اٹھانے کے سلسلے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ پہلے سے جنوبی یمن کی علیحدگی پسندی کا سلسلہ موجود تھا لیکن اب جبکہ حوثیوں کو شکست پر شکست ہوتی چلی جارہی تھی ایسے عالم میں عدن کی حکومت کی ناکہ بندی کیلئے جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں میں پھونک بھرنے کی مہم میں تیزی پیدا کردی گئی۔
سرکاری افواج کو یقین ہوچلا تھا کہ وہ جلد ہی صنعاءکوحوثی باغیوں سے بازیاب کرانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ اسی دوران اسے عدن پر نئے محاذ کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ سیاسی اور عسکری تبدیلی نے سارا مزا کرکرہ کردیا۔ پرانے خدشات ابھر کر سامنے آنے لگے کہ علیحدگی پسند جنوبی یمن کے عناصر پر مخالف طاقتوں نے ہاتھ رکھ دیا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو وہ اپنی صفوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ایران اور قطر نے اس حوالے سے خصوصی کردارادا کیا۔ یہ پہلے ہی سے یمن میں جنگ کو طول دینے کے درپے ہیں۔ اس حوالے سے قطر اب تک جو تشریحات پیش کرتا رہا ہے موجودہ صورتحال اس کے ان دعوﺅں کی نفی کررہی ہے۔ قطری میڈیا مسلسل یہ دعویٰ کررہا ہے کہ متحدہ عرب امارات ہی جنوبی یمن کے علیحدگی پسندوں کی پشت پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنوبی یمن کے علیحدگی پسند پہلے سے نہیں تھے۔ بلاشبہ تھے۔ یمن میں انکی ہمنوا تنظیم بھی موجود تھی لیکن عدن میں 20سے زیادہ افراد کا جھڑپوں میں مارا جانا کسی اور فریق کی دخل اندازی کا پتہ دے رہا ہے۔
علیحدگی پسندی کے علمبردار طاقت کے استعمال کا جواز یہ پیش کررہے ہیں کہ یمن زبردست جنگ کی صورتحال سے دوچار ہے اور وہ اس صورتحال سے مشکلات میں مبتلا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوان وزارت عظمیٰ پر مسلح حملہ سیاسی اختلاف کی تمام حدود کو پار کرچکا ہے۔ مسلح گروہ جنوبی یمن کی ریاست کے قیام کے جذبات رکھنے والوں کو ویسے ہی اقدامات پر آمادہ کررہا ہے جیسا کہ حوثی باغیوں نے شمالی یمن میں ریاستی ادارو ںکے خلاف ہتھیار اٹھانے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔
جہاں تک خود مختار جنوبی ریاست کے قیام کی خواہش رکھنے والوں کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ اہل یمن کا ہے اسے وہ مل جل کر طے کرسکتے ہیں۔ مستقبل میں چاہیں تو ریاستیں قائم کرلیں اورعلیحدگی پسند عناصر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں عالمی اداروں سے رجوع کرکے معاملہ طے کرالیں۔ دلیل دیں کہ یمن پہلے سے ہی دو خودمختار ریاستوں پر مشتمل رہا ہے اور اب جبکہ اتحاد کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے تو بہتر ہوگا کہ جنوبی یمن اور شمالی یمن کی ریاستیں ایک بار پھر بحال ہوجائیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف وغیرہ کسی بھی ادارے سے رجوع کرکے تہذیبی و تمدنی طریقے سے یہ مسئلہ طے کرایا جاسکتاہے۔عراقی کردوں نے جن کی جدوجہد اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے انہوں نے اپنے طور پر علیحدگی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم دنیا بھر کے ملکوں نے اسے مسترد کردیا ۔ سب کچھ سیاستدانوں کی رغبت اور علیحدگی پسندوں کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتا۔
جنوبی یمن میں ایسے لوگ کثیر تعدا د میں ہیں جو سارے مسائل کی جڑ متحدہ یمن کو گردان رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سابق صدر علی صالح کے زمانے میں یمن تباہی سے دوچار ہوا او ر ریاستی ادارو ںکی ناکامی کی بڑی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔ موجودہ جنگ غیر قانونی طریقے سے اقتدار پر قبضے اوربغاوت کی تحریک کو کچلنے نیز قانونی ریاست کو اقوام متحدہ کے منصوبے کے مطابق بحال کرنے کیلئے ہورہی ہے۔ خلیجی فارمولا اس کی پشت پر ہے۔ موجودہ حکومت عارضی ہے۔بہتر ہوگا کہ بغاو ت کو کچلنے اور آئینی حکومت کی بحالی تک جنوبی یمن کی ریاست کی بحالی کا خواب دیکھنے والے صبر سے کام لیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭