Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک آخر لاقانونیت کے شکنجے میں کیوں؟

***صلاح الدین حیدر ***
پاکستان(Land of the pure)جہاں انسانیت کی تعظیم اور تکریم ہو، اللہ واحدلاشریک کے احکامات کے تحت اس کا ملک کا نظام چلے۔ دنیا کی مجبوریاں اپنی جگہ، جدیدیت ، اور ترقی اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہے، باری تعالیٰ نے قرآن کریم ، فرقان حمید میں فرمایا ہے کہ تم تلاش کرو ،سمندر کی اتہا گہرائیوں میں ، اسلام کی ا علیٰ ترین بلندیوں کو تاکہ تم دنیا پر حکمرانی کرسکو، اسے باغ جنت بنا سکو۔ کچھ عرصے تک تو یہ پیغام میسر رہا۔مسلم سائنس دانوں ، اور ریسر چ اسکالر نے نت نئے راستے تلاش کیے۔ دنیا کو جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ مسلمانوں کے چرچے دنیا بھر میں پھیل گئے، لیکن پھر ہمیں شیطان نے آدبوچا، اس نے تو خالقِ کائنات نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میں تیرے بندو ں کو بہکا تا رہوں گا۔ پروردگار نے بھی اجازت دیدی اور کہا: جا آزمالے، یہ میرے بندوں کا بھی امتحان ہوگا، کہ کون میرے نزدیک ہے، اور کون مجھ سے دوری اختیار کرتاہے۔
ً تاریخ کے ادوار بدلتے رہے ، انقلابات نے کئی ایک اعلیٰ وارفع حکمرانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ ملکوں کا جغرافیہ سینکڑوں دفعہ بدلا ، نت نئے ممالک روئے زمین پر ابھرے،نت نئی زبانیں، نت نئی ثقافتیں، نت نئی اذہان، نت نئی ادائیں ظہور پذیر ہوتی رہیں۔ انقلابات میں مملکت ِ پاکستان کا وجود میں آنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ پاکستان بنا تھا کہ یہاں انصاف کا بول بالا ہوگا، اللہ اور اس کے رسولؐ کے اصولوں اور تعلیمات پر عمل درآمد ہوگا لیکن یہاں تو ہم بہک گئے ۔ہم کو اسلاف کے اصول اور کارہائے نمایاں بھول گے، بلکہ ذہن سے نکال باہر کردئیے۔اسلام کے نت نئے معنی سمجھانا لوگوں نے اپنا فرض سمجھ لیا اور مسلمان ٹکڑیوں بلکہ فرقوں میں بٹ گئے، تقسیم درتقسیم ، لیکن اس کی بشارت تو رسول مقبول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم نے اپنی زندگی میں قیامت کی نشانیوں میں گنوا دیا تھا۔
تو پھر رونا کیسا، افسوس صرف یہ ہوتاہے کہ اسلا م کے نام پر بنا ہوا ملک آخر لاقانونیت کے شکنجے میں بری طرح جکڑ گیا ہے۔مجرم کو سزا کے بجائے ارباب اقتدار کا تحفظ دے دیا جاتاہے۔ بد انتظامی سے ملک چل سکتاہے، لولا لنگڑاہی سہی ، لیکن ناانصافی فقط تباہی کے دھانے پر لے جاتی ہے۔ اس کا مظاہرہ ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، ایک پولیس آفیسر آج خود اپنی پولیس فورس سے خوفزدہ ہے۔ رائو انوار کی شکل میں ایک درندہ صفت سنیئر پولیس آفیسر،ماورائے عدالت قتل میں نہ صرف ملوث ہے، بلکہ پچھلے دو سالوں میں 270لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔ خدا کی رسی دراز ضرور ہوتی ہے ، لیکن جب پکڑ ہوتی ہے تو پھر خدا ہی یاد آتاہے، رحم کی بھیک مانگتے زبان نہیں تھکتی، سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس  رائو انوار جس کو بڑے بڑے لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی، دھڑلے سے بے خوف وخطر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار تا رہا، بالآخر اس کا بھی یوم حساب آہی گیا۔ کئی مہینوں سے ایک قابل نوجوان نقیب اللہ کو ہلاک کرنے کے بعد، جب ملک میں شور غوغا مچا تو بھاگتے ہی بنی۔سارے سرپرست ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔کوئی پرسان حال نہ تھا، اسے کسی کونے کھدرے میں پناہ لینی پڑی، لیکن جب پولیس یہاں تک کے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس اے ڈی خواجہ نے، جو کہ ماہر سمجھے جاتے ہیں، اور ایماندار بھی ، نے ہتھیار ڈال دئیے کہ کراچی سے لے کر اسلام آباد اور پشاور تک اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہی مسئلے کا حل ڈھونڈنے پر مجبور ہونا پڑا۔ انہوں نے کمال ِ خوبی سے اُسے اپنی حفاظت میں لینے کا اعلان کردیا۔ پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسی کو رائو انوار کی گرفتاری سے روک دیا اور اس سے کہا کہ تم عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہوجائو۔ تمہاری پوری بات سنی جائے گی۔ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیںگے۔چیف جسٹس ثاقب نثارنے یہ احکامات رائو انوارکی طرف سے ایک خط موصول ہونے کے بعد جاری  کئے ۔ انوار نے ان سے درخواست کی تھی کہ میرے خلاف تفتیش کرنے کے لیے ایک جوائنٹ انسویسٹی گیشن ٹیم ، اور جے آئی ٹی، ترتیب دی جائے جس میں پولیس کا کوئی افسر نہ ہو۔ ظاہر ہے اسے سند ھ پولیس یا سندھ حکومت پر اعتماد نہیں تھا۔ اس کی بات مان لی گئی۔ اب دیکھیں وہ کب سپریم کورٹ کے سامنے اپنے آپ کو حاضر کرتاہے۔ 
یہ تو محض ایک مسئلہ ہے ، ورنہ لاقانونیت تو معاشرے میں ناسور کی طرح سرایت کرچکی ہے، کراچی جیسے شہر میں جہاں سڑکوں پر گاڑیوں اور لوگو ں کا اژدہام ہوتاہے وہاں دن دھاڑے دو نوجوان شہید کردئیے گئے۔ قاتلوں کا پتہ نہیں۔مطلب صرف دو ہی نکل سکتے ہیں، یا تو ملک کی پولیس حکومت ِ وقت کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے، یا پھر اس میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ سکے۔ تفتیشی عمل سے تقریباً نابلد ، اس کی ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے، جو کہ پولیس کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اُسے قانون کے مطابق کام کرنے نہیں دیتے،ذرا سی حکم عدولی پر کسی اور جگہ ٹرانسفر یا نوکری سے ہی فارغ کردیا جاتا ہے۔ پولیس بیچاری کیا کرے،نہ چاہتے ہوئے بھی اسے حاکم وقت کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑتاہے۔ انصاف کہاں گیا؟ کون پروا کرتاہے؟ملک کے بیشتر علاقوں سے معصوم بچیوں کی لاشیں ملتی ہیں ۔گوجرانوالہ،سیالکوٹ ،اندرونِ سندھ، خیبر پختون خوا، پنجاب میں خاص طور پر جہاں کے وزیر اعلیٰ اور وزیر ِقانون رانا ثناء اللہ کے خلاف لوگوں کو مروانے کا الزام بڑے عرصے سے لگ رہاہے لیکن آج تک کسی نے پروا تک نہیں کی ۔ عاصمہ رانی کے پی کے سے غائب ہوئی، مردہ پائی گئی، ایک عاصمہ ،اس سے پہلے پنجاب سے غائب ہوئی،لاش کوڑے کے ڈھیر میں ملی، زینب کا قتل آج تک معمہ ہے،عمران کو گرفتار تو کر لیا گیا ہے، اللہ کرے، اسے انصاف کے مطابق سزا مل سکے، والدین سر پیٹ رہے ہیں، انصاف ، انصاف کی پکار، صرف صدا بہ صحرا ثابت ہونے کے علاوہ اور کچھ اثر نہیں رکھتی۔سیاست دان اپنی عیاشیوں میں پڑے ہوئے ہیں، یا صرف اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے بے تاب۔نقارخانے میں طوطی کی کون سنتاہے،یہی حال ہمارے ملک کا ہے۔ جہاں  عوام سوائے اللہ کو پکارنے کے اور کچھ نہیں کرسکتے۔بے بسی کا عالم ہے، جو ہم سب کے لیے باعث شرم ہے۔آپ دوش بھی دیں تو کس کو دیں؟ جس ملک کا وزیر اعظم نااہلی کے بعد’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کی صدا لگاتا تھکتا نہیں نظر آتا۔ان کی بیٹی مریم نواز ججوں کو مورودِالزام ٹھہراتی ہیں اور نواز شریف کے وزراء طلال چوہدری اور دانیال عزیز عدالت کی گرفت میں آنے کے باوجود مداح سرائی میں مصروف ہیں، گویا کہ پنجاب ہائوس میں اسلام آباد میں ہونے والا اجلاس دربار خاص ہے،عوام کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی بات کی جاتی ہے لیکن عوام کی بھلائی پر کوئی توجہ نہیں ۔نواز شریف فرماتے ہیں کہ میرامقدمہ عوام لڑ رہی ہیں،صحیح ہے، لیکن آپ نے عوام کے لیے کیا کیا؟ وہ تو آج بھی بھوک افلاس ،کے چنگل سے باہر نکلنے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی آزاد پرندہ،سونے کے پنجرے میںقید کردیا جائے، پر مارتا رہے، لیکن اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتا، تعلیم اور صحت پر کوئی توجہ نہیں ۔کتنی نئی یونیورسٹیاں ، کتنے نئے کالج، کتنے نئے ہسپتال کھلے؟ کاش کوئی ہمیں بتابھی دے۔عالی شان محلات ، چم چماتی سڑکیں، خوبصورت عمارتیں تو بن گئیں لیکن غریب کو کیا فائدہ؟ یہی تو سمجھانا چاہتا ہوں۔
 
 

شیئر: