افسوس! الٹی ہو گئیں سب تدبیریں
کہنے کو بہت کچھ تھا، موضوعات بھی کافی تھے، لیکن آج کل ہر پاکستانی اور دُنیا کے دوسرے ممالک میں 7 سالہ معصوم زینب کا بہیمانہ قتل اور کراچی میں معطل ایس ایس پی ملیر رائو انوار لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ کسی اور موضوع کی طرف لوٹنا بے وقوفی ہوتی اسلئے یہ سوچ کر کہ چلو دونوں واقعات جو کسی طرح سے بھی سانحات سے کم نہیں، پر اکتفا کیا جائے۔ تو چلیں آپ کو ایک ایسی کہانی سناتے ہیں جس میں نہ چاہنے کے باوجود آپ کی دلچسپی لامحالہ بڑھ جائیگی۔ بات ہی کچھ ایسی ہے، جسے دیکھ کر رونا اور اپنی بداخلاقی پر ہنسنا بھی آرہا تھا۔ کہنے کو تو وہ پریس کانفرنس تھی جس کا بڑے طمطراق سے اہتمام کیا گیا۔ میڈیا بھرپور انداز میں موجود تھا۔ ٹی وی کیمرے دھڑا دھڑ واقعات کو محفوظ کررہے تھے۔ ایک سینٹر ٹیبل سجائی گئی، جس میں کرسیٔ صدارت ظاہر ہے وزیراعلیٰ پنجاب کے واسطے مخصوص تھی۔ جب تک وہ تشریف لاتے، عجیب سماں دیکھنے میں آیا۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ (جو اپنی چند حرکات کی وجہ سے خاصے مشہور ہیں) نے جھک کر زینب کے والد حاجی محمد امین (جو قصور سے خاص طور پر لاہور تشریف لائے تھے یا شاید بلائے گئے تھے) کو سرگوشی کے انداز میں یہ سمجھاتے دیکھا گیا کہ حضور بس آپ صرف اتنا ہی کہیے گا کہ قاتل کو سخت ترین سزا دی جائے۔بے چارے امین صاحب سرہلاتے رہے، جی جی، بس اتنا ہی کہوں گا، جو آپ کہیں وہی کروں گا۔ اُنہیں کیا معلوم تھا کہ اُنہیں اس گندے کھیل میں عجیب ہی کردار دیا جارہا تھا۔ میری اب تک سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر رانا ثناء اﷲ کو اس قسم کی ہدایت دینے کی ضرورت کیوں پڑی۔ ایک ہی مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ بس ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلے کو تماشا بناکر پیش کیا جائے۔ تو حضور! ڈرامہ شروع… شہباز شریف تشریف لائے، بڑے پُرزور انداز میں اعلان کیا کہ زینب کا قاتل پکڑا گیا ہے، نام اُس کا عمران ہے اور وہ قصور شہر کے اُسی محلے میں رہتا تھا جہاں زینب کا بھی گھر تھا۔ اب تک تو ٹھیک تھا، کوئی غلط بات نہیں کی گئی، لیکن جیسے جیسے وزیراعلیٰ یا معاف کیجیے خادم اعلیٰ پریس کانفرنس میں آگے بڑھتے گئے، وہ ساتھ ہی خود سے دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجاتے رہے، یعنی خود کو شاباش پیش کرتے رہے۔
یہ افسوس کا مقام تھا یا جشن کا… مذاق تو اُڑنا ہی تھا، ٹیلی وژن پر خوب جگ ہنسائی ہوئی۔2 بڑے چینلز نے دل بھر کے خادم اعلیٰ کی خبر لی۔ ساری خبر ایک مذاق بن کر رہ گئی۔چٹ پٹے الفاظ میں پیش کیے جانے کی وجہ سے اُس کی اہمیت میں سو گنا اضافہ ہوگیا۔ یہی کافی نہیں تھا۔ سب کچھ کہہ کر جب مائیکرو فون زینب کے والد کے آگے بڑھایا گیا تو کسی نے پیچھے سے وہ مائیکرو فون کھینچ لیا، لیکن چونکہ امین صاحب نے اُس پر ہاتھ رکھا ہوا تھا تو خادم اعلیٰ سے اور تو کچھ بن نہیں سکا، پشیمانی کے عالم میں امین صاحب کے مائیکرو فون کا بٹن بند کردیا، وہ حیرانی سے خادم اعلیٰ کو دیکھتے رہے کہ کس قسم کی خدمت تھی، اُنہیں بولنے تک نہیں دیا گیا۔
آپ ہی بتائیں، جہاں اس طرح کی زبان بندی ہو، وہاں انصاف کون اور کہاں ڈھونڈے گا۔ چونکہ ٹی وی کیمرہ نے ساری حرکتیں ریکارڈ کرلی تھیں، اس لئے یہ خبر پورے پاکستان بلکہ دُنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی 6/7 گھنٹے کے دوران کئی بار دِکھائی گئی۔ مذاق تو اُڑنا ہی تھا۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے فوراً ہی بیان داغ ڈالا کہ شہباز شریف! شرم کریں۔ ایک تو10 دن کے بعد مجرم پکڑا گیا تھا، اُس پر پولیس کی سرزنش کرنے کے بجائے، اُسے داد تحسین پیش کی گئی۔ کیا اسے ہی انصاف کہتے ہیں؟ پھر نہ صرف اُنہوں نے بلکہ دوسرے کئی زعماء نے شہباز شریف کی اس حرکت پر حیرانی اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ ساری ہمدردیاں زینب کے والد کے ساتھ تھیں، جنہیں بعد میں کئی ایک ٹی وی اینکرز نے انٹرویو کیا اور بہت کچھ اُگلوا ڈالا۔ کیا عزت رہ گئی خادمِ اعلیٰ کی۔ اس کا جواب وہ خود ہی دے دیں تو بہتر ہوگا لیکن جواب کیا ہوسکتا ہے،سوائے اظہارِ ندامت کے۔ پنجاب حکومت عمران کے پکڑے جانے پر بھرپور کریڈٹ لینا چاہتی تھی، لیکن افسوس اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ صبح کے اخبارات نے جلی سرخیوں سے اس شرم ناک قصّے کو صفحۂ اوّل پر نمایاں طور پر شائع کیا۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے سنے گئے کہ جہاں رانا ثناء اﷲ ہوں وہاں کسی اچھے عمل کی توقع کی ہی نہیں جاسکتی۔ خوشامد میں پیش پیش، جھوٹ بولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور معاملات کو خراب کرنے میں اکثر اُن کا نام آتا ہے۔
یہ تو تھی بے چاری زینب اور اُس کے راندۂ درگاہ والد کی کہانی۔ تو چلئے کراچی چلتے ہیںجہاں رائو انوار، جو پولیس اِنکائونٹر کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کئی برسوں سے ملیر میں براجمان ہیں، تبادلہ کیا جاتا ہے لیکن پھر وہ کسی نہ کسی طرح اپنی جگہ واپس آجاتے ہیں جیسے وہ موروثی پوسٹ ہو۔ اُن کیخلاف نہ صرف قتل، دہشت گردی، غیر قانونی کام کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوچکا ہے، لیکن جب وہ دہشتگردی کیخلاف مقدمہ چلانیوالی عدالت کے سامنے پیش نہ ہوئے تو کہا گیا وہ روپوش ہوگئے۔ انسپکٹر جنرل سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے اعلان عام کردیا کہ پولیس پارٹی جہاں جہاں موقع ملے گھروں پہ ریڈ کرے اور چونکہ سننے میں یہ بھی آیا تھا کہ وہ ملک سے باہر کراچی ایئرپورٹ سے تشریف لے گئے، لیکن نقیب اﷲ کو دہشتگرد بنا کے ہلاک کرنے کے بعد جب اُنکی گرفتاری کے احکامات جاری ہوئے تو انہوں نے خاموشی سے اسلام آباد کے ایئرپورٹ کو دبئی جانے کیلئے چنا، لیکن چونکہ وفاق نے سندھ حکومت کے کہنے پر اُنکا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈلوادیا تھا، اُنہیں روک لیا گیا اور ابھی تک پتا نہیں وہ کہاں ہیں۔ اسلام آباد ایئرپورٹ حکام کا کہنا ہے کہ اُنکے پاس سفر کے جعلی کاغذات تھے۔ پولیس افسر ہونے کے ناتے اُنکے پاس محکمے کا No objection certificate بھی ہونا چاہیے تھا جو اُنکے پاس نہیں تھا۔ قانون کے ہاتھ تو سبھی جانتے ہیں، بہت لمبے ہوتے ہیں، اُن کیخلاف ایک تحقیقاتی ٹیم نے نڈر ایڈیشنل ڈی آئی جی ثناء اﷲ عباسی کی ماتحتی میں ثبوت و شواہد جمع کیے۔ اس نے بھی صاف طور پر کہہ دیا، قانون سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ پولیس اُن کی تلاش میں سرگرداں تھی، لیکن اُن کا کچھ پتا نہیں تھا۔ مجھے ایک واٹس ایپ مسیج میں بتایا گیا کہ چونکہ رائو انوار پاکستان کے ایک بہت بڑے بلڈر کے ساتھی تھے اور کئی ایک اہم شخصیات کی پُشت پناہی اُنہیں حاصل تھی تو اُنہوں نے اپنا حشر دیکھ کر اُن کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی کہ میں سارے راز افشا کردوں گا ۔ کر بھی سکیں گے کہ نہیں، یہی تو دیکھنا ہے۔
اب آپ خود ہی بتائیں قارئین کہ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا، وہاں انصاف ناپید ہوجائے گا، ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا تو ملک کا کیا بنے گا…؟