کیا ہم اخلاقیات بالکل بھول گئے
پاکستان میں کئی ایک علاقوں میں پچھلے 2ہفتوں سے ایسے ہولناک واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں، اعلیٰ ترین روایات کے امین، لیکن کیا ہم نے اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں کی پیروی کی ہے یا اسے بھی جزدان میں لپیٹ کر طاق میں سجادیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے بڑے فخر سے فرمایا تھا کہ:
دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
طارق بن زیاد نے تو ساحلِ ہسپانیہ پر اُتر کر کشتیاں تک جلا ڈالی تھیں کہ واپسی کا کوئی راستہ بچے ہی نہیں۔ مسلمانوں نے شاندار فتوحات حاصل کیں، لیکن آج وہی اسپین ہے، جہاں مسلمانوں نے 800 سال حکومت کی اور آج وہاں پر مسجد قرطبہ تک میں کلمہ پڑھنے والا کوئی نہیں۔ یہ قرطبہ سے Cardoba ہوگئی۔ اسلام کے نام لیوا مٹ گئے، جو تھوڑے بہت ہیں وہ ہند اور پاکستان سے تارکین وطن ہیں۔ اُنہوں نے ہی اﷲ تعالیٰ کا نام وہاں زندہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں اقدار کی پستی اس حد تک ہوگئی ہے کہ ہم نے ننھے منے معصوم بچّے بچیوں کو تشدد کا نشانہ بناکر اُنہیں ہلاک کرنا شروع کردیا:
بات ہوتی گلوں کی تو سہہ لیتے ہم
اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کو خیر بھول ہی جائیں، اس لئے کہ اب نہ وہ حوصلہ ہے، نہ ہی عزم و ہمت، اور اگر میں یہ کہوں کہ:
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
جی بات ہی کچھ ایسی ہے۔ 7 سالہ زینب پر تشدد بلکہ زیادتی کی گئی اور پھر جب وہ زخموں کی تاب نہ لاکر دُور بہت دُور چلی گئی تو میڈیا نے ایک طوفان برپا کردیا۔ بہیمانہ قتل و غارتگری تو ہمیشہ سے ہی ہوتی رہی ہے لیکن بات ایک ،2 دن ہوئی اور پھر ہمیشہ کے لئے خاموش لیکن واہ رے میڈیا کہ جس نے قوم کو بالآخر جگا کر چھوڑا۔ تمام ملک میں شور مچ گیا۔اوپر سے نیچے ہر سطح تک لوگ ہل کر رہ گئے، سیاست دانوں نے زینب کے گھر کے چکر لگائے۔ مقصد اگر سیاسی دُکان چمکانا ہو تو بھی ہمدردی کا جذبہ تو موجزن نظر آیا۔ اُس کا خون ابھی تک تازہ و رواں دواں ہے اور شاید کافی لمبے عرصے تک رہے لیکن ستم ظریفی تو دیکھئے کہ قتل در قتل ،متواتر طریقے سے ہولناکیوں پر ہولناکیاں۔ 19 سالہ انتظار ملائیشیا سے تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کے درمیان گھر والوں سے ملنے کراچی آیا، کیا پتا تھا کہ اُسے موت گھیر کر یہاں لے آئی ہے ۔دن د یہاڑے سڑک پر گولیوں کی بوچھاڑ میں ہمیشہ کی نیند اُسے سلادیا گیا۔ اُس کے ساتھ ایک لڑکی تھی، مدیحہ جو اُس لمحے تو وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے رکشا میں بھاگ کھڑی ہوئی تھی لیکن انتظار کے والد کی آہ و بکا کے بعد اسے شامل تفتیش کرلیا گیا۔ گتھیاں بجائے سلجھنے کے اُلجھتی جارہی ہیں۔ صرف24 گھنٹے بعد ایک اور نوجوان موت کی آغوش میں پہنچادیا گیا۔ پولیس کے انسپکٹر جنرل کے مطابق مقصود جو کہ دُور دراز علاقے سے تعلق رکھتا تھا، سادے کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں کا نشانہ بن گیا۔ وہ سارے تو گرفتار ہوگئے، لیکن یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے، سوچنے والی بات تو یہ ہے۔ موت کا کھیل آخر کیوں کھیلا جارہا ہے۔
پنجاب کے سرحدی علاقے قصور یا کراچی ہی نہیں لگتا پورا ملک موت کے شعلوں میں گھر گیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں ایک نوخیز کلی، پھول بننے سے پہلے ہی بے رحمی سے مسل دی گئی۔ عاصمہ کا خون ابھی خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ اُسی کی ہم نام ایک اور میڈیکل کالج کی طالبہ کے پی کے کے سرحدی علاقے کوہاٹ میں وحشیوں کے ہاتھوں اپنی آبرو بیدردی سے لٹاکر، اﷲ کو پیاری ہوگئی۔
یہ حیوانیت کیوں اور کیسے ایک دم عود آئی۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا واقعہ۔ کیا خوفِ خدا نہ رہا، یا انسانیت کا سبق بھلا دیا گیا۔ طرّہ اس پر یہ کہ کے پی کے میں جہاں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور چیئرمین عمران خان، جو اپنے صوبے کی پولیس کے گن گاتے نظر آتے تھے، اب خاموش ہیں۔ دُنیا اُن کا مذاق اُڑا رہی ہے کہ کہاں گئی کے پی کے کی وہ اعلیٰ تربیت یافتہ پولیس، 2ہفتے ہوگئے، عاصمہ کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔ میڈیا کی چیخ و پکار نے سب کو جھنجھوڑ دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے پولیس کو نوٹس جاری کردئیے لیکن شنوائی کے روز وہ اس بات پر سخت برہم نظر آئے، کہ آخر انسپکٹر جنرل صاحب کیوں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ پوری کہانی کیوں نہیں بتائی گئی۔ ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل نے جو کچھ کہا وہ باعث شرمندگی تھا۔ معلوم ہوا کہ کے پی کے جیسے صوبے میں جہاں روز بم دھماکے ہوتے تھے، ایک بھی فرانزک لیباریٹری نہیں ۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ ڈی این اے کے نمونے لاہور بھجوا دیئے گئے ہیں اور نتائج رپورٹ آنے کے بعد پتا چلیں گے۔ چیف جسٹس تو جیسے آگ بگولا ہوگئے۔ تو یہی کہیے نا کہ آپ میں اہلیت ہی نہیں ، پھر اتنا شور شرابا کیوں کیا جاتا ہے؟ ہم تو سنتے تھے کہ کے پی کے میں پولیس نے بہت اعلیٰ معیار قائم کیا ہوا ہے۔ کہاں گیا وہ معیار؟ ملک کے جنوبی حصّے ،درونِ سندھ میں بھی اسی قسم کے واقعات رونما ہونے کی رپورٹ ملی ہے۔ بچوں کو ورغلا یا بہلا پھسلا کر دُور دراز علاقوں میں لے جایا گیا، اُن کے ساتھ زیادتی کی گئی اور پھر لاش کوڑے کچرے کے ڈھیر میں پھینک دی گئی۔ کوہاٹ کی عاصمہ رانی کی بہن نے لندن میں ایک ٹی وی انٹرویو میں کچھ تفاصیل دیں کہ کس طرح اُن کی نوجوان بہن کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ کمال تو یہ کہ نہ صرف عمران خان نے صحافیوں کے سوال کو ہنسی میں ٹال دیابلکہ عاصمہ کے گھر تعزیت تک کے لئے بھی نہیں گئے۔ یہ ہیں ہمارے سیاست داں، قوم کے لیڈران۔ ہے کوئی پوچھنے والا؟
اُدھر کراچی میں ایس ایس پی رائو انوار ابھی تک مفرور ہیں۔ تعجب تو یہ ہے کہ سندھ پولیس کے ایک دستے نے اُن کے اسلام آباد کے گھر پر چھاپہ مارا، لیکن وہ مقفل تھا، کوئی چوکیدار بھی نہیں تھا۔ سندھ پولیس آئی جی اے ڈی خواجہ کے احکامات کے تحت، جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے، لیکن رائو انوار جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 2017 سے 2018 تک صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں 370 ماورائے عدالت ہلاکتیں کیں، پہلے تو بھیس بدل کر اسلام آباد ایئرپورٹ سے دبئی جانے کی کوشش کی، لیکن پکڑے گئے۔ سپریم کورٹ نے اُن کا نام ای سی ایل میں ڈلوادیا تھا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ نے عہدے سے معطل کردیا۔ اُن کے ساتھ ایک اور ایس ایس پی الطاف بھی عہدے سے ہٹادئیے گئے۔ رائو انوار جن کو یقینابڑے بڑے لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی، 8 سال ملیر کے علاقے میں اپنے ہنر کے جوہر دِکھاتے رہے۔ وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ سے کسی رپورٹر نے یہ سوال تک پوچھ لیا کہ کیا زرداری یا ملک ریاض بھی اُن کی پشت پناہی کرتے تھے، جواب فوراً ہی نفی میں آیا۔ زرداری صاحب سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اُدھر لندن میں موجود ملک ریاض (جو ملک کے رئوسا میں شمار کیے جاتے ہیں) نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنے تعلقات کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ وہ رائو انوار کو جانتے تک نہیں تھے، نہ ہی اُنہوں نے کبھی غیر قانونی باتوں سے اُن کا واسطہ رہا۔
بات ہونی تھی تو ہوگئی۔ ظاہر ہے، جانتے بوجھتے ہوئے کون اپنی گردن پھنسائے گا۔ تردید تو ہونی ہی تھی۔ ایک مضطرب قوم سپریم کورٹ اور پولیس کی اعلیٰ قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے کہ شاید انصاف مل جائے، اُمید تو نہیں، لیکن نااُمیدی بھی تو کفر ہے۔