Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرخ پھولوں اور چاکلیٹس کی ضرورت نہیں

یہ محبت تو وفاشعاری، قربانی اور وقار کے ساتھ کسی کے ساتھ زندگی جینے کا ہی نہیں کسی کے نام پر زندگی بتا دینے کا ہنر سکھاتی ہے
ممتاز شیریں۔ دوحہ، قطر
ہم جہاں پلے بڑھے ہیں، وہاں ہم محبتوں کے بڑے عجیب روپ سے مانوس ہیں۔یہاں کسی کا نام سن کر کانوں کی لویں سرخ ہو جاتی ہیں اور بندھن بندھ جانے پر زندگی اس کے ہوتے ہی نہیں، اس کے نہ ہونے پر بھی اسی کے نام گزاری جاتی ہے۔ دل جس کے نام پر دھڑکتا ہے اس کے بعد کسی کا سوچنا بھی گناہ عظیم لگتا ہے اور اس کے نام کی حرمت اپنی جان سے بھی بڑھ جاتی ہے۔
جس محبت سے ہم آشنا ہیں، وہ مسجد کے طاق میں جلتی شمع کی دھیمی دھیمی خوشبودار لو کی طرح مقدس ہے. وہ روح کو منور تو کر دیتی ہے لیکن کسی کو جلا کر راکھ کر دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
یہ محبت تو وفاشعاری، قربانی اور وقار کے ساتھ کسی کے ساتھ زندگی جینے کا ہی نہیں کسی کے نام پر زندگی بتا دینے کا ہنر سکھاتی ہے۔ ہمارے شاعر اور ادیب ہمیں بتاتے رہے ہیں کہ ہجروفراق خود شناسی کے سفر کا وہ دروازہ ہے جو معرفت حقیقی تک لے جاتا ہے اور خواہشات نفس کی بندگی ہوس کا دوسرا نام ہے۔
ہم پرانے زمانے کے لوگ اپنے اماں ابا کے بیچ بڑا عجیب سا رشتہ دیکھتے رہے ہیں۔ جذباتی سی اماں جو ابا کا نام نہیں لیتی تھیں۔۔۔ اور ابا جو اماں کے لئے پھول اور کارڈ نہیں لاتے تھے۔۔۔مگر کچھ ایسا تھا کہ شام کے سمے اماں گھر سے باہر کہیں بھی ہوں تو گھر جانے کیلئے بے چین ہونے لگتی تھیں کہ ابا کے آنے کا وقت ہے انھیں کھانا دینا ہے۔ہم چڑ کر کہتے۔۔! "ارے بھئی! ایسی بھی کیا وحشت۔۔۔ سب بنا کر تو آئی ہیں، کھا لیں گے خود وہ ".تو وہ برا مان کر کہتی تھیں۔۔"یہ اچھی کہی۔۔۔ایک بے چارا آدمی، سارے دن کا تھکا ہارا، گھر پہنچے تو کوئی حال پوچھنے والا، دسترخوان سجا کر کھانا دینے والا بھی نہ ہو۔۔۔!!ایسا ہی ہے تو کوئی ہوٹل سے کھانا نہ کھالے، گھر کیوں بسائے ؟ " اور وہ خاموش سے ابا،جو گھر آنے پر اماں کو لمحے بھر کو بھی سامنے نہ پائیں تو ہرکمرے میں جھانک کر پوچھنے لگتے تھے" بھئی۔۔۔!! تمہاری امی کہاں ہیں۔۔؟" اور اب اماں ابا کے بعد ہماری بہنیں۔۔۔جو بڑی خاموشی سے بہنوئیوں کی پیالی میں بچی ہوئی چائے پی لیا کرتی ہیں اور ان کی پلیٹ میں وہیں سے کھانا کھاتی ہیں جہاں سے ان کے میاں نے چھوڑا ہو۔ ہمارے بہنوئی اور پھوپھا ، خالو وغیرہ کچھ عرصہ گزر جانے پر ساری گرہستی اپنی زوجہ کے ذمہ لگا کر بے فکرے ہو جاتے ہیں اور ہر بات پہ کہتے ہیں کہ اپنی  بہن ،پھپھو ،چچی،خالہ سے پوچھو بھئی۔۔۔ ہمیں کیا خبر۔۔!ہماری خالہ زاد اور چچازاد جو شادی کے سپنے دیکھتے دیکھتے جب پیا دیس سدھارتی ہیں تو ویسے تو اپنے شوہروں سے خوب خوب جھگڑتی اور خفا ہوتی ہیں، مگر جوکہیں کسی اور کے میاں سے تقابل کاموقع آئے تو اپنے مجازی خداؤں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا کر ثابت کرنے لگتی ہیں کہ ان کے میاں سے زیادہ اچھا تو اور کوئی ہے ہی نہیں۔۔!اور ہماری سہیلیاں ہمیں چاند رات کو مہندی لگوانے اور کھسے خریدنے کے لئے اپنے شوہروں کے ساتھ کتنے جتنوں سے چوری چھپے بازار جانے کے مزیدار قصے سنا کر ہمارا دل جلاتی رہی ہیں۔
اور پھر ہم خود۔۔۔ جو سب لڑکیوں کی طرح خوابوں کی دنیا میں رہتے تھے، اپنے شوہرنامدار کی اینٹی شاعرانہ طبیعت پر روہانسو ہو جاتے تھے  تو ہماری امی سمجھاتیں، "محبتوں کے رنگ ایک سے تو نہیں ہوتے، سب کا انداز جدا ہوتا ہے۔ تم اپنی خواہش کو نہ دیکھو ، اس کی محبت کے رنگ کو سمجھنے کی کوشش کرو" 
پھر وقت کے ساتھ ہم نے بھی جاناکہ اگر ہم کبھی جھگڑنے کے بعد بھوکا سونے کی کوشیش کریں تو ہمارے میاں جی کو جو اتنا شدید غصہ آتا ہے، اسی میں دراصل کچھ گڑبڑ ہے ہماری ہر مشکل میں جو وہ ہمیشہ کبھی ڈھال بن کر اور کبھی پشت بن کر ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اس کی کمی کیا کسی رومانوی شعر سے پوری ہو سکتی ہے۔۔!اپنی کسی ناکامی پر ان کے سامنے منھ بسورتے ہیں تو وہ مسکرا کر ہمارا حوصلہ بڑھا تے ہیں۔۔!کیا یہ محبت نہیں ہے؟  تسلیم۔۔!کہ کئی لمحے ایسے آتے ہیں جب ایک دوسرے سے شدید خفگی ہو جاتی ہے۔۔!لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کو چھوڑنے کے خیال سے ہی سانس سینے میں اٹکنے لگتا ہے۔
وقت ہمیشہ کی طرح نئے موسموں کے ساتھ ایک بار پھر ہمارے گھروں پر دستک دے رہا ہے۔۔! تبدیلی کو کون روک سکاہے۔۔! لوگ نئی روایتوں اور طریقوں کی رنگینی اور نشوں سے مدہوش ہو رہے ہیں۔۔! میں اپنی مانوس خوشبوؤں اور خوشیوں کی اسیر کسی کو نئے رنگ اوڑھنے سے کیسے روک سکتی ہوں۔۔؟ مذھب تو ویسے بھی ایک مضحکہ خیز نہیں تو کم از کم "متنازعہ معاملہ " ضرور ٹھہرا کہ اس کا حوالہ اب معتبر ہی کہاں رہا۔۔! مشرق کی روایات بھی فرسودہ اور مختلف فی گردانی جانے لگیں، سائنس اور آزادئی اظہار کی راہ میں رکاوٹ جو ہیں۔۔! مگر دانشوران دہر سے ایک گزارش ضرور ہے۔۔۔!خدارا یہ تو نہ کہیں کہ میری مانوس روایات محبت آشنا ہی نہیں رہیں، انہیں محبت کا سلیقہ ہی نہیں آیا۔۔! آپ کہیے کہ ہمیں محبت کے اس ڈھکے چھپے، تہذیب کے رنگوں سے سجے، مذھب کی ہدایات میں ڈھلے طریقوں کی فرسودگی سے گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ آپ کو کچھ اور رنگ پسند ہیں، اظہار اور تعلق کے کچھ اورانداز بھا تے ہیں، مگر خدارا یہ تو نہ کہیے کہ میری تہذیب رنگوں اور خوشبوؤں کو نہیں جانتی تھی کیا ہم بحیثیت مسلمان اور مشرقی تہذیب سے وابستہ ہونے کی وجہ سے خلوص و محبت اور ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔۔؟۔۔وہ تہذیب جس میں نکاح محبت کا تہوار ٹھہرا ہے۔۔۔اورکئی کئی روز تک منایا جاتا ہے۔۔۔روایات اور تہذیب سے سجا یہ تہوار ایسی قوس و قزح ہے کہ صرف دلہن کے جوڑوں کے رنگ اور سجاوٹ دیکھ کر اجنبیوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی ہیں۔۔! اس تہوار میں محبت حنا بن کر ہاتھوں میں سجتی ہے، ابٹن بن کر سانسوں کو مہکاتی ہے، سکھیوں، سہیلیوں، دور پار کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں تک کوشامل کرتی ہے۔۔۔!آپ یہ تو نہ کہیے کہ ہمیں رنگوں، خوشیوں، اورخوشبوؤں سے آشنائی نہیں رہی۔۔اس لئے ہم محبتوں کے یہ رنگ باہر سے مانگ کر لائے ہیں۔۔! ہمارے نبی کریم صلی اللہ و علیہ وسلم نے تو آج سے 1400 سال پہلے ارشاد فرما دیا تھا کہ۔۔۔"  ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیتے رہا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے۔"
اس حدیث کے بعد بھی کیا ہمیں مغرب سے محبت کے آداب سیکھنے کی ضرورت باقی بچتی ہے؟ 
اس نئے نویلے تہوار کے جلوؤں کو دیکھ کردھڑکتا ہوا دل صرف یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ کیا محبت کا نام اب عبادت کا سا مقدس نہیں رہے گا؟ کیا یہ بازار میں رلتے اس کھلونے کی طرح رسوا ہو گا جسے کبھی ایک بچہ کچھ دیر کھیل کر دیکھتا ہے ، خوش ہو کرسب کو دکھاتا ہے اورپھر دل بھر جانے پر پھینک دیتا ہے؟ کیا محبت وفا شعاری ، قربانی اور اپنی جان کی حرمت سے زیادہ ہو جانے کا نام نہیں رہے گی؟
  ایک مسلمان اور مشرقی تہذیب و ثقافت کے علمبردار ہونے کے ناتے ہماری محبتوں کے اظہار اور معیار کا انداز قطعی طور پر مختلف ہے ہماری مشرقی روایات اس محبت کے اظہار کے لئے کسی خفیہ مقام کو نہیں تلاشتی، بلکہ ہم اپنی ان محبتوں کے اظہار میں اپنے اہل و عیال کو بھی شامل کرتے ہیں ہمارا مذہب، ہماری روایات یہ سکھاتی ہیں کہ اپنے ان عزیز رشتوں سے اظہار محبت کے لیے ہمیں غیر اخلاقی، مشکوک، اور قابل اعتراض پس منظر رکھنے والے کسی دن کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
ہمارا مذہب ہمیں ان رشتوں کی محبت کو ہر پل اپنے دل میں زندہ رکھنا اور اپنے عمل سے اسے ثابت کرنا سکھاتا ہے اور اسے ثابت کرنے کے لئے ہمیں سرخ پھولوں کی، بھالوؤں کی ، چاکلیٹس کی بالکل ضرورت نہیں، اسے ہمارے طرز عمل سے صبح و شام جھلکنا چاہیئے۔۔۔اور۔۔۔ایک بات اور۔۔۔ہم ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنے والے لوگ جنونی، متشدد یا محبت کے جذبے کے مخالف ہرگز نہیں ہیں۔۔ہمارے دلوں میں بھی بہاریں آتی ہیں،جذبے مہکتے ہیں، آنکھیں سپنے دیکھتی ہیں۔۔۔لیکن۔۔۔! اپنے محرم رشتوں کے لئے۔۔
ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ محبت جیسے حسین ترین جذبے کی توہین نہ کی جائے۔۔عامیانہ، سطحی،بازاری انداز سے اس کے اظہار کے بجائے رشتوں کے تقدس اور نزاکتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا اظہار کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: