Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشکل حالات میں واقعۂ معراج کا سبق

معراج کا سفر دعوت دیتاہے کہ ہم مایوسی دور کریں، جدوجہد کا جذبہ پیدا کریں،حوصلہ رکھیں، اپنے اندر تبدیلی لائیں، اپنی اصلاح کریں، اسلام پر چلتے رہیں توہم مٹیں گے نہیں بلکہ آگے بڑھیں گے
 
* * * *مولانا نثار احمدحصیر قاسمی ۔ حیدرآباد دکن* * * *
 رسول اللہ کے چچا ابوطالب اورآپ کی غمگسار شریک حیات حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپ   پر مصائب ومشکلات اورحزن وملال کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، اسی لئے اس سال کا نام جس میں ان دونوں کی وفات ہوئی عام الحزن (غم کا سال)پڑگیا، مگر ان حالات ومشکلات اورغم واندوہ کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی رسول مایوس نہیں ہوئے، بلکہ صبر کا دامن تھامے رہے اورعزم وحوصلہ کے پہاڑ بنے رہے اوراپنے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں پوری جانفشانی سے لگے رہے۔ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کے جواں حوصلہ میں ارتعاش پیدا نہیں ہوا اورنہ ہی آپ کے پائے ثبات میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوئی۔
     آپ نے مکہ سے نکل کر اس امید پر طائف کا سفر کیا کہ شاید وہاں کوئی معین ومددگار مل جائے، اورآپ کی نصرت وتائید کرنے والا وہاں نکل آئے، مگر وہاں آپ کو ایسا کوئی فرد نہیں ملا، آپ نے طائف والوں سے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں، مگر ان کے سلوک وطرز عمل نے آپ کی امیدوں پر پانی پھیردیا، پھر بھی آپ مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔
    اہل طائف نے آپ کو اپنے مشن سے روکنے کی کوشش کی، آپ سے اورآپ کی تعلیمات سے انہوں نے روگردانی کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ آپ کو ذہنی اذیتیں بھی دیں اورجسمانی بھی۔آپ کا جسد اطہر لہولہان کردیا اورآپ کو اتنے زخم کھانے پڑے جتنا کہ بعد میں کبھی کسی غزوے میں بھی کھانے کی نوبت نہیں آئی۔
     رسول اللہ طائف سے غمگین وغمزدہ حالات میں لوٹے۔ صرف آپ کی زبان پر اپنے رب کے سامنے شکوہ کا اظہار ہوا جس کا سامنا آپ کو اپنی قوم سے کرنا پڑا تھا۔ اس آزمائش اورتکلیف دہ سفر کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعزاز بخشا، آپ کی تکریم کی اورآپ کی قدر ومنزلت اورعظمت ورفعت کو دوبالا کرنے اورآپ کی شان کو بلند کرنے کے لئے آپ کو اسراء ومعراج سے سرفراز فرمایا جہاں تک کی رسائی نہ کسی نبی کو نصیب ہوئی اورنہ ہی جبرئیل علیہ السلام جیسے ملائکہ مقربین کو۔ہماری نگاہیں رسول اللہ کے زخمی جسد اطہر اورقدم ِمبارک پر ٹک جاتی ہیں اورایسا محسوس ہوتاہے کہ آپ اب بھی لہولہان ہیں اورآپ کے قدم مبارک سے خون رس رس کر آپ کی جوتیوں کو جکڑ رہاہے۔یہی قدم جو خون سے لت پت ہے ہزار ناموافق حالات اورناسازگار موسم کے باوجود ڈگمگاتا نہیں ، اس میں ذرہ برابر جنبش نہیں آتی، اس میں ایک لمحہ کے لئے بھی توقف نہیں ہوتا بلکہ وہ اسلام کے مشن کو لیکر رواں دواں رہتاہے ۔یہی قدم اللہ کے اس پہلے گھر سے عرش وسدرۃ المنتہا کا سفر شروع کرتاہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے قیام وبقاء کے لئے بنایاہے۔ پہلی منزل بیت المقدس شہر کا وہ خانۂ خدا آتی ہے جسے اللہ نے مسجد اقصیٰ کے نام سے یاد کیا اوربتایاہے کہ اس کے ہرچہار جانب واطراف میں برکت رکھ دی گئی ہے، پھر یہاں سے بلند ی کی سمت آسمانوں کا سفر شروع ہوتاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
    سبحان الذی اسری بعبدہ…السمیع البصیر (الاسراء1 )
    اس سے ہمیں سبق اورواضح پیغام ملتاہے کہ اللہ کی راہ میں دین وایمان کے لئے جو خون بہتاہے وہ ضائع نہیں ہوتا بلکہ دیر یاسویر ایک نہ ایک دن رنگ ضرورلاتاہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے قربانیاں دیں، اوردین وایمان کے لئے اپنے خون بہائے، انہوں نے اس دین کو ہم تک پہنچانے کے لئے اپنے جسم وجان اورمال واسباب کا نذرانہ پیش کیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی،ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں امت کو سیدھا راستہ اختیار کرنے کی راہ ہموار ہوئی اوروہ رشد وہدایت سے بہرہ ور ہوئے اوراسی لہو اورقربانی کا نتیجہ ہے کہ اسلام روئے زمین کے چپہ چپہ تک پھیلا اورآج مسلمان ہرخطہ میں موجود ہیں۔
     اللہ کی راہ میں خون کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب محمدمصطفی کی میزبانی کی مالک الملک اورخالق کون ومکان نے جسمانی طور پر آپ کو اپنے پاس بلایا، قریب کیا اورہم کلام کیا جبکہ روحانی طور پر تو آپ قریب سے قریب تر تھے ہی، اور اس بلند مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو وہ چیزیں دکھائیں جو دکھانی تھیں۔ آپ نے اپنے رب کی آیات ونشانیوں کو بچشم خود دیکھا اورمشاہدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ان کے ساتھ اوران کی دعوت کے ساتھ کتنی عنایتیں ہیں جس سے آپ کے یقین میں اضافہ ہوا اورآپ   اِس انشراح واطمینان کے ساتھ واپس آئے کہ آپ کی دعوت کامیابی سے ہمکنار ہوگی،آپ کا لایا ہوا اللہ کا پیغام سارے روئے زمین پر پھیلے گا، آپ کو دشمنان اسلام اورسچے دین کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے والوں پر فتح حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مشن اوراس کے مستقبل کے بارے میں آگاہ کیا جس سے آپ خوش ہوگئے، آپ کا قلب نورِ الٰہی سے جگمگانے لگا، اورآپ کو خالق کائنات سے وارفتگی اور اس کی پسندیدہ مخلوق سے انس وتعلق میں شدت پیدا ہوگئی۔
    اللہ تعالیٰ کی جانب سے رسول اللہ کو یہ اعزاز وتمغہ اوریہ بیش بہا تحفہ معراج کی شکل میں دیا گیا کہ آپ طویل مزاحمت کی راہ پر گامزن رہیں، جد وجہد کرتے رہیں اورہمت نہ ہاریں۔یہ اعزاز اوریہ انعام رسول اللہ کو سالہا سال کے صبر، استقامت، جدوجہد، اوراپنے مشن پر ڈٹے رہنے کے بعد عطاکیا گیا، گویا یہ کٹھن ودشوار اورمصائب وآلام سے لبریز سالوں کی محنت اورمسلسل کاوشوں کا صلہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمانوں سے بھی اوپر بلایا، اوراس قدر عظیم کائنات علوی وسفلی کی سیر کروائی جس کی وسعت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔وہاں اللہ کے اعجاز اوراس کی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔
     یہ سفر معراج صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے ایمان وتصدیق کا امتحان تھا کہ وہ بظاہراس انہونی کی تصدیق کرتے ہیں یانہیں؟ رسول اللہ جوبتاتے ہیں اسے مانتے ہیں یانہیں؟یہ ایمان پر ان کی ثابت قدمی کا امتحان تھا جس میں وہ کامیاب ہوئے اوربرملا کسی جھجھک کے بغیر پکار اٹھے کہ الصادق الامین کی باتیں درست ہیں ۔ہم آپ کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں، اورکیوں نہیں جبکہ ہم آپ کی غیب کی بتائی ہوئی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو اس پر ہم کیوں یقین نہ کریں۔ وہ رسالت کے مقصد کو عملی جامہ پہنانے والے تھے، جس کا لب لباب لوگوں کو شیطان کی عبودیت وبندگی سے نکال کر رحمن ورحیم کی عبودیت وبندگی پر لاناتھا۔
    اسراء ومعراج کا معجزہ درحقیقت اُس زخم کا مرہم تھا جو رسول اللہ کو حق وصداقت کے دشمنوں کی جانب سے لگے تھے، یہ ان اذیت رسانیوں کا مداواتھا جن سے محبوب کبریا اورآپ کے اصحاب دوچار ہورہے تھے۔ اس کے بعد دعوت الی اللہ کے راستے کھل گئے، ہدایت کے راستے روشن ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے فضیلت وشرف اورعلم ومعرفت کا خزانہ آپ کو عطا کیا جس سے آپ دعوت ورسالت کو دوسروں تک پہنچانے میں منہمک ہوگئے اورلوگوں کو صحیح راستے پر لاکھڑا کیاتاکہ وہ صحیح منزل تک پہنچ جائیں اوردنیا میں بھی انہیں کامیابی وسربلندی نصیب ہو اورآخرت میں بھی انہیں سعادت حاصل ہو۔
    آپ نے اپنی دعوت کی بنیاد صبر واستقامت اورمسلسل جد وجہد پر رکھی، یہی وجہ ہے کہ مادی زبوں حالی اوردنیوی مال ومتاع اوراسباب و وسائل کے فقدان کے باوجود یہ دعوت عام ہوئی اوریہ دین پھلتا پھولتا رہااورمختصر مدت میں نہایت برق رفتاری کے ساتھ جزیرۂ عرب سے نکل کر آفاق عالم تک پہنچ گیا، یہ کامیابی ہمیں بتاتی ہے کہ نجاح وکامیابی اورسربلندی وعظمت کی بنیاد مسلسل جدوجہد، لگن امید وبیم اورکچھ کرگزرنے کا حو صلہ وجذبہ ہے، مادی قوت وسطوت نہیں، اگرچہ اسے اختیار کرنا اسباب کے درجہ میں بھی ضروری ہے۔
    اسراء ومعراج کی حقیقت اوراس کے مقاصد ہمیں زندگی کو سنوارنے اوراس کی اصلاح کرنے کی دعوت دیتے اورمستقبل کی تعمیر کی خوش خبری دیتے ہیں، وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جس زمین وآسمان، سورج چاند اوراس کائنات علوی وسفلی کے اندر موجود تخلیقات کو اللہ نے ہمارے لئے مسخر کررکھا اورہمارے تابع بنایاہے، اس میں موجود اللہ کی نشانیوں کا ہم مطالعہ کریں، اس کے اندر غور وفکر کریں اورتحقیق وجستجو کریں تاکہ ہم صحیح معنوں میں خلافت کے مستحق بن سکیں۔
     اللہ کے نبی نے اپنے اصحاب کی تربیت عقیدے کی اصلاح، عبادت وریاضت ، احکام وشریعت کی پابندی کراکر کی۔ انہیں اسلام کی متوازن پالیسی اورآداب سے آگاہ کیا، انہیں اسلام کے نظام اورزندگی گزارنے کے لئے اس کے نہج کا عادی بنایا۔ انہوں نے اپنے عقائد وعبادات کو درست کرکے شریعت واحکام کی پابندی کی،اس کی سیاست وآداب کو اپنایا اوراپنی زندگی کو اس نظام کے مطابق ڈھال کر اسلام کا عظیم قلعہ تعمیر کیا جس میں انسانیت نے پناہ لی اوروہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے بھائی بھائی بن گئے اوروہ حقیقی معنوں میں خیر امت ثابت ہوئے۔
     مگر جب مسلمانوں نے اسلام کے ان بنیادی اصول وضوابط سے منہ موڑاتو وہ کمزور ہوگئے، ان میں مایوسی گھر کرگئی، محنت ومشقت کا جذبہ معدوم ہوگیا، وہ تن آسانی کے عادی اورجسمانی راحت وآرام کے دلدادہ ہوگئے، مادیت پرستی نے ان کو جکڑلیا اوروہ دنیا پر اوندھے گر پڑے اوراس کے پیچھے بھاگنے لگے، اس کے نتیجہ میں نہ یہ کہ ان کا اقتدار جاتا رہا،بلکہ ان دشمنان اسلام کی ہیبت ان کے دلوں پر چھاگئی اوروہ ذلیل ورسوا کئے جانے لگے، ہر جگہ قتل کئے جانے لگے اورذلت کے ساتھ بھگائے اورملک بدرکئے جانے لگے۔
    آج ساری دنیا کے اندرحالات اسلام اورمسلمانوں کے خلاف ہیں ۔انہیں نیست ونابود کرنے کی مہم چھڑی ہوئی اوراسلام کے نشانات تک کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے جو ہماری بداعمالی اوردین اسلام سے دوری کی وجہ سے ہے۔ہم مایوسی کا شکار ہوکر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ہیں، ہماری ہمت پست ہوگئی ہے۔
    معراج کا سفر ہمیں دعوت دیتاہے کہ ہم اپنے اندرسے مایوسی کودور کریں، اپنے اندر جدوجہد کا جذبہ پیدا کریں حوصلہ رکھیں، اوربہترمستقبل کی اللہ سے امید کرتے ہوئے قدم آگے بڑھائیں سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی لائیں، اپنی اصلاح کریں، اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، اپنی زندگی اسلام کے مطابق بنائیں، پھر تعلیم کے میدان میں آگے بڑھیں اللہ کی مخلوقات میں غور وفکر کرنے کا جو ہمیں حکم دیاگیاہے اس پر عمل کرتے ہوئے سائنس وٹکنالوجی کے میدان کو اختیار کریں،اوردعوت دین کو اپنا شعار بنائیں، اوریقین رکھیں کہ عداوت ودشمنی کے ہزار طوفان کیوں نہ چل رہے ہوں اوررکاوٹوں کا سیل رواں کیوں نہ جاری ہو، ہمیں مٹانے کی خواہ کتنی ہی تدبیریں کیوں نہ کی جارہی ہوں، ہم اگر اسلام کے بتائے ہوئے خطوط پر چلتے رہے تو ہم مٹیں گے نہیں بلکہ آگے بڑھیں گے، بس شرط ہے صبر واستقامت، مسلسل جدوجہد، عدم مایوسی، تابناک مستقبل کی امید، جواں حوصلہ، علم میں دسترس  اوردعوت دین پر عمل، اوریہ یقین رکھیں کہ ہرتنگی کے بعد آسانی ہے:
    فإن مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا، فاذا فرغت فانصب، وإلی ربک فارغب ۔
    ’’تو یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے، پس جب تُوفارغ ہو تو عبادت میں لگ جا اوراپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا۔‘‘(الشرح8-5)۔
    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
     ’’تم اگر صبر کرو اورپرہیزگاری کرو تو ان کا مکر تمہیں کچھ نقصان نہ دے گا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کا احاطہ کررکھاہے۔‘‘(آل عمران120)
مزید پڑھیں:- - - - - -- -غیر مسلموں سے سماجی تعلقات

شیئر: