مشعل السدیری ۔ الشرق الاوسط
اندلس کے خلیفہ الحکم بن ہشام نے ابن بشیر کو قرطبہ شہر کا جج بنانے کیلئے ایوان شاہی میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔
ابن بشیر کو یہ بتائے بغیر کہ انہیں کیوں طلب کیاگیا ہے حاضر ہونے کا حکم دیا گیا۔ وہ قرطبہ جاتے ہوئے ایک عالم دین کے پاس گئے جن کی رائے اور مشورے پر وہ بھروسہ کیا کرتے تھے۔ ابن بشیر نے ان سے کہا کہ مجھے خلیفہ نے دربارمیں طلب کیا ہے۔ نہیں پتہ طلبی کی وجہ کیا ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے قرطبہ کا جج نہ بنادیا جائے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ آیا میں خلیفہ کا حکم قبول کرو ںیا معذرت کرلوں۔ عالم دین نے یہ سن کر ان سے سوال کیا کہ : ”میں آپ سے 4باتیں دریافت کرونگا اوریہ چاہوں گا کہ جواب بالکل درست دیئے جائیں۔ اس کے بعد ہی کوئی مشورہ دے سکوں گا۔ ابن بشیر نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ جو چاہیں پوچھیں میں آپ کو بالکل درست باتیں بتاﺅ نگا“۔
عالم دین نے پوچھا عمدہ کھانوں، نرم لباس اور شاندار سواری پسند کرتے ہو یا نہیں۔ ابن بشیر نے جواب دیا کہ بخدا مجھے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ بھوک مارنے کیلئے کیا کچھ چاہئے۔ نہ ہی مجھے عمدہ لباس اور نہ ہی شاندار سواری میں کوئی دلچسپی ہے۔ عالم دین نے پوچھا کہ خوبصورت چہرے دیکھ کر کیسے لگتا ہے؟ کیا حسین چہرے دیکھ کر نفسانی خواہش ابھرتی ہے؟ ابن بشیر نے کہا کہ نہ تو میں نے کبھی حسین چہروں میں کوئی دلچسپی لی اور نہ ہی حسین چہرے نظر نہ آنے پر کبھی دل میں کوئی الجھن پیدا ہوئی۔ عالم دین نے پوچھا کہ کیا لوگوں کی تعریف و توصیف آپکو اچھی لگتی ہے۔ انہوں نے جواب دیا بخدا حق کے معاملے میں نہ مجھے کسی کی تعریف کی پروا ہوتی ہے اور نہ ہی برائی کرنے پر مجھے کوئی کلفت ہوتی ہے۔ عالم دین نے دریافت کیا کہ تمہیں عہدہ ملنا کیسا لگتا ہے؟ اور برطرفی کی صورت میں تکلیف ہوتی ہے یا نہیں۔ ابن بشیر نے کہا کہ مجھے نہ عہدہ ملنے پر خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی برطرفی پر ناگواری۔ یہ سن کر عالم دین نے کہا کہ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ جج بننے کی پیشکش قبول کرلیں۔ اللہ آپ کو کامیابی بخشے گا۔ ابن بشیر قرطبہ پہنچے تو انہیں خلیفہ نے جج مقرر کردیا۔ انہوں نے نازک ترین مقدمات کے فیصلے انتہائی عادلانہ انداز میں کئے۔
اگر میرے قارئین مجھ سے سچ جاننا چاہتے ہیں تو میں ایمانداری سے عرض کرونگا کہ ابن بشیر میں اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انہیں جو جو باتیں مرغوب نہیں تھیں وہ مجھے سب کی سب مرغوب ہیں اور جو باتیں انہیںپسند تھیں وہ مجھے ناپسند ہیں۔ جہاں تک عہدے کے لئے مر مٹنے والی بات ہے تو میرے اندر یہ بات تو نہیں ہے البتہ اگر سونے کی طشتری میں سجا کر مجھے کوئی عہدہ پیش کیا جائیگاتو میں ہرگز مسترد نہیں کرونگا۔آپ میری اس صاف گوئی پر میری بابت ضمیر کی ادنیٰ سرزنش کے خوف کے بغیر کہہ سکتے ہیں کہ مشعل السدیری گمشدہ انسان ہے اور وہ زندگی کی کنجیاں گم کئے ہوئے ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭