سمیر عطا اللہ ۔ الشرق الاوسط
ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی یافتہ 10ممالک میں جاپان، امریکہ، جنوبی کوریا ، اسرائیل، جرمنی، روس، برطانیہ، کینیڈا، چین اور فن لینڈ کے نام آتے ہیں۔
اس فہرست میں ایک نام شامل نہیں اور وہ نام ہندوستان کا ہے۔ کویتی جریدے ”القبس“ میں کالم نگار دلع المفتی نے ایک کالم قلمبند کیا تھا جس کا عنوان تھا ”دماغ“ اس میں انہوں نے ہندوستان کو سرفہرست رکھا تھا۔ دلع المفتی نے خاص طور پر انڈین ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ سے فارغ ہونے والوں کی بابت تحریر کیا ہے کہ مذکورہ انسٹیٹیوٹ ہارورڈ، پرنسٹن اور ایم آئی ٹی کے ہم پلہ ہے البتہ اس میں داخلہ لینا بیحد مشکل کام ہے۔ امیدوار ایک لاکھ 78ہزار ہوتے ہیں جن میں سے صرف 3500کو داخلے دیئے جاتے ہیں۔ اس انسٹیٹیوٹ میں داخلے کی تیاری 10برس کی عمر سے کی جاتی ہے۔ اس میں داخلے کا خواب دیکھنے والوں کو پہلے سے ہی پتہ ہوتا ہے کہ وہ اس میں داخلے کے اہل ہیں یا نہیں۔ نہ ہونے کی صورت میں انہیں اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی اور پروگرام اپنانا پڑتا ہے۔
دلع المفتی نے خلیجی عوام کو مشورہ دیا کہ وہ عوام میں رائج اس مضحکہ خیز کہاوت کا استعمال بند کردیں جس کے تحت ہندوستانیوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اہل خلیج خود کو بے وقوفوں کی فہرست سے نکالنے کیلئے کہتے ہیں ”شایفنی ہندی“ (کیا میں تمہیں ہندوستانی نظر آرہا ہوں)۔ اسی طرح کی کہا وت مصر میں رائج ہے جہاں کے لوگ خود کو کم عقلوں کے زمرے سے نکالنے کیلئے کہا کرتے ہیں ”فاکرنی ہندی“ (کیا تم مجھے ہندوستانی سمجھ رہے ہو) ۔کہاوت مصر کی ہو یا خلیج کی۔ لہجے کے ایک فرق کے ساتھ مفہوم دونو ںکا ایک ہی ہے۔
میں جب بھی ہندوستان کی بابت کچھ پڑھتا ہوں تو مجھے اپنے آپ سے شرمندگی اور ندامت کا احساس ہوتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ہندوستانیوں سے معذرت کروں ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اسی کالم میں بحرین کی عظیم شخصیت یوسف احمد الشیراوی کا اس وقت مذاق اڑایا تھا جب انہوںنے اہل خلیج کو ہندوستان کا رخ کرنے اور ہندوستان کے ساتھ قدیم تعلقات کے احیاءکی بات کی تھی۔ انکا کہناتھا کہ ہندوستان کے ساتھ بحرین اور خلیج کے تعلقات عرب دنیا سے تعلقات سے کہیں زیادہ مفید ہونگے اور درد سری بھی کم ہوگی۔
ہندوستان کیساتھ اہل خلیج کے تعلقات کے 2 مراحل معروف و مشہورہیں۔ پہلا مرحلہ وہ تھا جب خلیج کے لوگ ممبئی کے ساتھ منافع بخش تجارت کیا کرتے تھے اور ہند کیساتھ تجارت کو ترجیح دیتے تھے۔ دوسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب ہندوستانی کارکن خلیجی ممالک میں بھر گئے۔ زیادہ تر ہندوستانی کارکن خطے کے لوگوں کے ہم پلہ نہ تھے۔ ایشیا کے دیگر ممالک کے بھی ہمسر نہ تھے۔ پہلے مرحلے کے دوران بھی خلیجی ممالک کی خودمختاری تک ہندوستانی روپیہ ہی خلیجی ممالک او راسکے بازاروں کا رائج سکہ تھا۔
اب تیسرا مرحلہ شروع ہوا ہے۔ ہندوستان کے سادہ لوح مزدور خلیجی ممالک میں اب بھی کم نہیں ہوئے، کثیر تعداد میں ہیںالبتہ ہندوستانی انجینیئرز کی تعداد ہر شعبے میں روز افزوں ہے۔ علاوہ ازیں ہندوستان کی ترقی کا ایک اہم ترین نمونہ ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم نریند رمودی ہیںجو 8برس کی عمر میں ٹرینوں میں چائے فروخت کیا کرتے تھے۔
70لاکھ کے لگ بھگ ہندوستانی خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کررہے ہیں۔ ہندوستان اپنی ضرورت کا 80فیصد پٹرول ان ممالک سے درآمد کررہا ہے جو اپنی ضرورت کی ہر شے ہندوستان سے درآمد کرتے رہے ہیں۔ حق اور سچ یہ ہے کہ اب مذاق کے طور پر بھی ہندوستان کے حوالے سے مبینہ چٹکلے زبان پر لانے کی کوئی گنجائش نہیں۔
یہاں میں ایک او ربات ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ کسی بھی قوم کے خلاف کوئی بھی بات کہہ دینا ٹھیک نہیں تاہم دنیا بھر میں اس کا رواج ہے۔ مثال کے طور پر یورپی ممالک میں بلجیم کے لوگوں اور برطانیہ میں آئرلینڈ کے باشندوں کےخلاف چٹکلے لطیفے عام ہیں۔ اسی طرح حمص کے باشندوں کے خلاف بھی چٹکلوں اور لطیفوں کا بازار گر م رہا یہاں تک کہ حمص کا ڈی این اے امریکہ پہنچا ۔ تجزیہ کیا گیاتو پتہ چلا کہ حمص کے باشندوں کا ڈی این اے اسٹیو جابز کے خلیے سے ملتا جلتا ہے۔ ہم میں سے کون شخص ہے جو اسٹیوجابز کی حیثیت اور دنیا بھر میں انکے سائنسی اور تاریخی کارناموں سے واقف نہیں؟اسکا سادہ سا جواب یہی ہے کہ انسان جتنا زیادہ اس عبقری شخصیت کی بابت معلوم کرتا جائیگا اس کا یہ احساس بھی بڑھتا جائیگا کہ اب بھی اسٹیو جابز کی بابت اسے کافی کچھ معلوم نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭