دمام میں انڈین سوشل فورم کے زیر اہتمام دوسرے عالمی مشاعرے کا انعقاد
مسعود جمال۔دمام
محققین کا خیال ہے کہ ہماری مشترکہ تہذیب کو جو ثقافتی ورثے ملے ان ورثوں میں ایک وقیع ورثہ مشاعرہ بھی ہے۔ مشاعرہ یعنی شاعروں کا ایک ایسا اجتماع جس میں شعرا ءتقابل او ر تسابق کا جذبہ لے کر جمع ہوں اور شائقین سخن کو اپنااپناکلام سناکر دادِ سخن لیں۔مشاعرہ غالباََ ایران اور ایران کے بعد ہندوستان کی ایجاد ہے لیکن ہم علم کی ثقافتی تاریخ کے دھندلکوں کی طرف جہاں تک بھی اپنی نگاہ ڈالتے ہیں، وہاں تک ہمیں عہد عتیق اور ازمنہ وسطیٰ میں کسی ملک کے اندر کوئی ایسی روایت نہیںملتی جس میں شعرا کا کلام سننے کے لئے عوام کا ہجوم جمع ہوا ہو اور شاعر نے عوام کی بھیڑ میںکھڑے ہو کر اپنا کلام سنایا ہو اور اس بھیڑکے شورِبے ہنگام سے خراجِ تحسین وصول کیا ہو۔
اردو زبان کو ان مشاعروں سے بہت فائدے پہنچے یعنی مشاعروں ہی کے ذریعے اردو کے الفاظ،اردو کے محاورات ان کے کانوں تک بھی پہنچنے لگے جو اردو سے نابلد اور اردو کے ایک حد تک مخالف تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرتے تھے۔ وہ مشترکہ تہذیب جو ہمارا مشترکہ قومی سرمایہ ہے ،انہی تہواروں اورتقریبات میں باہمی شرکت کا نتیجہ ہے۔ سیاست نے جب فرقہ وارانہ عصبیت کی چنگاریاں انکے ذہنوں میں پیداکیں اور حکومت کے سیاسی مصالح نے ان کو ہوادے کر شعلہ بنایاتو تقریبوں اور تہواروں میں ان کی شرکت کم سے کم تر ہونے لگی۔ مغل درباروں اور مغل امراءکے محلوں میں ہندوﺅں کے تہواربڑے جوش و خروش سے منائے جاتے تھے۔ ہندو خواص اور عوام بھی مسلمانوں کے تہواروں میں شرکت کرتے تھے لیکن اب کسی تقریب یا کسی تہوار کے موقع پران کی شرکتِ باہمی کے اِمکانات تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں اب مشاعرہ ہی صرف ایک ایسی تقریب رہ
گئی ہے جس میں ہندو اور مسلمان یکجا ہو کر ایک دوسرے کے سماجی اور تہذیبی اثرات قبول کرتے ہیں۔ اس لئے جہاں تک ہندوستانی قومیت کے مفاد کا تعلق ہے اور جہاں تک اردو کے بین الاقوامی مزاج کی بحالی کا سوال ہے، یہ مشاعرے بلاشبہ ایک عظیم قومی اور لسانی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
پچھلی چند دہائیوں میں مشاعرے پاک و ہند سے باہر نکل کر مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور امریکہ میں پہنچ چکے ہیں جہاں اردو بولنے والے تارکینِ وطن آباد ہیں۔ وہ اپنی تہذیب کوزندہ رکھنے کاکام بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اور اردو زبان کی چاشنی اور خوشبو اس خطے میں بسنے والوں کے دلوں پر راج کرنے لگی ہے۔
منطقہ شرقیہ، سعودی عرب میں بھی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے انڈین سوشل فورم پچھلے 2برسوں سے بہت بڑے بڑے عالمی مشاعرے منعقد کر رہا ہے۔اِمسال بھی انڈین سوشل فورم نے دمام میں ایک شاندار تاریخی مشاعرے کا انعقاد کیا جس میں دمام اور الخبر سے آصف اختر ، مدینہ منورہ سے ضمیر سیوانی ، دہلی سے سعید احمدمنتظر، راجستھان سے سمپت سرل، دیوبند سے نواز دیوبندی اوربریلی سے اردو غزل کی آبرو وسیم بریلوی نے شرکت فرمائی۔ مشاعرے کی نظامت نوجوان اور ابھرتے ہوئے ہونہار شاعر سید شیراز مہدی ضیاءنے کی۔عبوری نظامت کے فرائض انڈین سوشل فورم کے سابق صدر عبدالوحید نے انجام دیئے اورحاضرینِ محفل کو خوش آمدید کہا۔
تلاوتِ کلام پاک اورترجمہ پیش کرنے کی سعادت قاری عبدالرقیب کوحاصل ہوئی۔ اس کے بعد عبدالوحید نے مہمانِ خصوصی عبدالسلام جندال اور انڈین سوشل فورم کے عہدیداران کے علاوہ عمائدینِ شہر کو شہ نشیں پر مدعو کیا۔اس موقع پرسب سے پہلے انڈین سوشل فورم کے کارگزار صدر سید منصور شاہ نے اپنے خطاب میں حاضرین کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور انڈین سوشل فورم کے اغراض و مقاصد بیان کئے اور اس کی کارگزاری پر روشنی ڈالی۔ انہوں ہے کہا کہ انڈین سوشل فورم کی یہ باوقار محفل اردو ادب اور شعر کے فروغ کے سلسلے کی دوسری کاوش ہے جس کے آپ گواہ بننے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ سعودی عرب کے منطقہ شرقیہ میں خصوصیت سے دیگر منطقات میں عمومی اعتبارسے انڈین سوشل فورم ، مجبور و لاچار اور مظلوم ہندوستانیوں کی ایک معتبر آواز ہے۔ خصوصیت سے مزدور طبقے، گھریلو ملازمہ و ڈرائیور اور دیگر لوگوں کے مسائل کو حل کرنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا نیرانہیں حقوق دلانے کی سعی و کوشش کرنا انڈین سوشل فورم اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔اِس رفاہی کام میں ہم خاص خیال رکھتے ہیں کہ مملکتِ سعودی عرب کے قانون کے دائرے میںرہتے ہوئے اس میں دی گئی مراعات سے استفادہ کرتے ہوئے، ہندوستانی سفارت خانہ ،ریاض کے رہنما اصولوں اور وہاں کے عہدیداران کے مشوروں پر عمل کریں جس کے سبب ہمیں بڑی کامیابیاںملی ہیں۔
مہمانِ خصوصی عبدالسلام جندال نے کہا کہ وہ انڈین سوشل فورم کے مشاعرے میں دوسری مرتبہ شرکت کر رہے ہیں اور انہیں اس تقریب میں شرکت کر کے بہت مسرت ہو رہی ہے حالانکہ ان کی اردو زبان سے واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی انہیں بہت اچھا لگ رہا ہے۔
ادارہ ھدف کے صدر معراج انصاری نے کہا کہ انڈین سوشل فورم جس طرح ہم وطنوںکے مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہے، وہ قابلِ ستائش ہے اور عوام سے درخواست کی کہ وہ ان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں تاکہ آپ مزید بہتر انداز میں لوگوں کی خدمات انجام دے سکیں۔
سید منصور شاہ نے مہمانِ خصوصی عبدالسلام جندال، معراج انصاری اورشفیع شمسی کو مومینٹو پیش کیا۔ عبدالسلام جندال نے عبدالستار اور عبدالوارث کو مومینٹو پیش کئے۔ اس کے بعد سعودی عرب کا قومی ترانہ اور ہندوستان کا ملّی نغمہ پیش کیاگیا۔ عبدالوحید نے اسپانسرز کا شکریہ ادا کیا جن کے تعاون سے ہی یہ مشاعرہ کامیاب ہوا ہے۔ شیراز مہدی ضیاءکو مشاعرہ شروع کرنے کی دعوت دی گئی ۔ انہوں نے شعرائے کرام کو شہ نشیں پر دعوت دی۔انڈین سوشل فورم سنٹرل کمیٹی کے صدر وسیم ربانی نے، وسیم بریلوی اورنواز دیوبندی کومومینٹو پیش کئے۔ انڈین سوشل فورم سنٹرل کمیٹی کے سیکریٹری محمد عظیم الدین نے سمپت سرل اورشیراز مہدی ضیاءکو مومینٹو پیش کئے۔ سیدمنصور شاہ نے سعید احمد منتظر، ضمیر سیوانی اور آصف اختر کو مومینٹو پیش کئے۔ آخر میں شعرائے کرام نے تمام اسپانسرز کو مومینٹو پیش کئے۔ناظمِ مشاعرہ سید شیراز مہدی ضیاءنے مشاعرے کا آغاز جاذب کے حمدیہ کلام سے کیا:
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
سورج کے اجالے سے،فضاو¿ں سے گھٹا سے
چاند اور ستاروں کی چمک اور ضیاءسے
انہوں نے کہا کہ شاعری کائنات کی بڑھتی ہوئی وسعتوں کو پہچاننے کانام ہے۔ ایک ذرّے کے اندر جو کائنات موجود ہے اسکی تخمین کاری میں بھی شاعری ہے، شاعری حسینوں کا گیت اورشہنائیوں کاسنگیت ہے:
جو دِکھ رہا ہے، اسی کے اندر جو اَن دِکھا ہے وہ شاعری ہے
جو کہہ سکاتھا وہ کہہ چکا ہوں، جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے
مصوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مصوری خاموش شاعری ہے اگر مصوری خاموش شاعری ہے تو شاعری بولتی مصوری ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی ،مغلیہ دور نے ہمیں تین نایاب تحفے دئیے ہیں، مرزا غالب، تاج محل اور اردو زبان۔ تاج محل کے بارے میں رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا کہ تاج محل محبت کی آنکھ سے ٹپکا ہوا وہ آنسو ہے جو وقت کے رخسار پر جم کر رھ گیا ہے مگر جب شاعر کے دل سے درد اٹھتا ہے اور وہ آنسو بن کر کاغذ پر ٹپکتا ہے، اس سے جو غزل ہوتی ہے وہ بھی تو کسی تاج محل سے کم نہیں ہوتی۔اس کے بعد آصف اختر نے پہلے شاعر کی حیثیت سے اپنا کلام پیش کیا:
٭٭آصف اختر:
دولت شہرت نام و عزت انسانوں کی ضرورت ہے
گل پوشی میں گل کی سازش ،گلدستوں کی ضرورت ہے
آصف اختر کے بعد ناظمِ مشاعرہ شیراز مہدی ضیاءنے اپنا کلام پیش کیا:
٭٭شیراز مہدی ضیاء:
مجھ کو کتنا بھی گراو¿ میں سنبھل جاو¿ں گا
سکہ وقت ہوں ، اس شہر میں چل جاو¿ں گا
وہ تو سورج ہے مزاج اس کا الگ ہے مجھ سے
چاند ہوں آج جو آیا ہوں تو کل جاو¿ں گا
٭٭٭
یہ جو ہم کہتے ہیں ہم سچے ہیں ہم جھوٹے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ سبھی وقول و قسم جھوٹے ہیں
خود کو اس واسطے دستار کے قابل سمجھا
ہم بھی جھوٹے ہیں مگر اوروں سے کم جھوٹے ہیں
اب مدینہ منورہ سے آئے ہوئے شاعر ضمیر سیوانی نے اپنا کلام سنایا:
٭٭ ضمیر سیوانی:
اور شدت سے یاد آتا ہے
جب کوئی پھول مسکراتا ہے
آپ اپنی ہنسی اڑاتا ہے
اس کی تصویر جو بناتا ہے
٭٭٭
دیا پھر سے جلا کر رکھ دیا ہے
ہواو¿ں کو تھکا کر رکھ دیا ہے
محبت میں ہمارا نام پاگل
کسی نے مسکرا کر رکھ دیا ہے
دہلی سے آئے ہوئے بزرگ شاعر سعید احمد منتظر نے خوب رنگ جمایا اورایک مرتبہ پڑھ کر چلے جانے کے بعد عوام کے اصرار پروہ دوبارہ پڑھنے کیلئے آئے کلام کا نمونہ حاضر:
٭٭سعید احمد منتظر:
تصور میں بھی تم نہ آو¿ تو جانیں
یہاں بھی بہانے بناو¿ تو جانیں
بھلانا ہمارا تھا دشوار ہی کیا
ہمیں بھولنا ،بھول جاو¿ تو جانیں
٭٭٭
آہ کرنا دلِ حزیں نہ کہیں
آک لگ جائے گی کہیں نہ کہیں
پھول پھینکو نہ مجھ پہ ہنس ہنس کر
چوٹ لگ جائے گی کہیں نہ کہیں
سعید احمد منتظر کے بعد راجستھان سے آئے ہوئے سمپت سرل نے طنز اور مزاح سے بھرپور فقروں سے حاضرین کو محضوظ کیا اور خوب داد وصول کی۔ان کے بعددیوبند سے آئے ہوئے شاعر نواز دیوبندی نے بھی کلام سنا کر خوب داد سمیٹی:
٭٭ نواز دیوبندی:
تم نظر سے نظر ملاتے تو
بات کرتے نہ، مسکراتے تو
چاندنی رات سسکیاں بھرتی
تم ذرا اپنی چھت پہ آتے تو
٭٭٭
جن پر لٹا چکا تھا میں دنیا کی دولتیں
ان وارثوں نے مجھ کو کفن ناپ کر دیا
٭٭٭
راز پہنچے ہمارے غیروں تک
مشورہ کر لیا تھا اپنوں سے
آخر میں بریلی سے آئے ہوئے شاعر اور صدرمشاعرہ وسیم بریلوی نے صدارتی خطبے میں کہاکہ آپ زبان والے بھی ہیں اور تہذیب والے بھی، اپنے وطن سے دور آپ جس طرح شعر و ادب کے ساتھ ذمہ داری نبھا رہے ہیں وہ یقینااردو کے مستقبل کیلئے روشن بات ہے۔ انڈین سوشل فورم جس طرح تارکینِ وطن کیلئے بے لوث خدمات انجام دے رہا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے اورآپ لوگ اس کیلئے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ آپ کا کام دو سطح پر چل رہا ہے، ایک عملی اوردوسرا فکری، عملی کام یہ ہے کہ آپ لوگوں کے کام آتے ہیں اور ذہنی و فکری کام یہ ہے کہ آپ شعری و ادبی محفل سجاتے ہیں۔ اس سے بہتر جشن منانے کا اور کوئی طریقہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ زبان کی حفاظت کرتے ہیں، ثقافت کی حفاظت کرتے ہیں اور تہذیب کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔زبان کتابوں اور رسالوں میں تو زندہ رہ سکتی ہے لیکن ہمارے دلوں میں جب ہی زندہ رہ سکتی ہے جب اسے گھروں میں زندہ رکھا جائے۔ اس خطاب کے بعد وسیم بریلوی نے اپنا کلام سنانا شروع کیا:
٭٭وسیم بریلوی:
جس زمیں پرمیں کھڑا ہوں یہ مری پہچان ہے
آپ کیاآندھی ہیں جو مجھ کو اڑا لے جائیں گے
آپ بس کردار ہیں اپنی حدیں پہچانئے
ورنہ اک دن اس کہانی سے نکالے جائیں گے
٭٭٭
تم میری طرف دیکھنا چھوڑو تو بتاو¿ں
ہر شخص تمہاری ہی طرف دیکھ رہا ہے
سامعین پر ایک سحر طاری ہو چکا تھا۔ وقت کا احساس تھم چکا تھا۔ دادو تحسین اپنی آخری حدوں کوچھو رہی تھی۔الفاظ کے جادوگر نے اپنا کمال دکھا دیا تھا۔ غزل کا بانکپن اپنے شباب پر تھا۔ہر شعرتوجہ سے سنے جانے کے بعد واہ واہ میں ملبوس ہو کر محفل میں گونج رہا تھا۔ اس طرح رات گئے یہ محفل اختتام پذیر ہوئی جس کی خاص بات یہ تھی کہ محفل کے اختتام تک سننے والے اپنی نشستوں پربراجمان رہے اور بغور مشاعرہ سنتے رہے۔