Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج کے پاکستان میں امید کی آخری کرن’’چیف جسٹس‘‘

 سپریم کورٹ  اگراپنا کام کرتی رہی تو استحکام آجائے گا، پاکستان میں ابھی سب کچھ نہیں بگڑا،امید پر دنیا قائم ہے، یہ ملک ابھی اتنا کمزور نہیں ہوا کہ اسے کوئی خطر ہ ہو
صلاح الدین حیدر ۔۔ بیورو چیف ۔۔ کراچی 
دراصل موضوع آج کا پاکستان تھا لیکن یہ اتنا وسیع وعریض ہوگا کہ اس پر نظر دوڑانے کے لئے صفحات تو درکنار ضخیم کتابیں بھی جلدوں میں شائع کرنی پڑ یں گی۔وقت اور قارئین کی سہولت کے لئے یہاں صرف موٹی موٹی باتیں ہی گوش گزار کرنے پر انحصار کرنا پڑے گا۔
پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیاتھا۔ آج کا پاکستان ،قائد اعظم کے پاکستان سے مختلف اور تبدیل شدہ شکل ہے ۔انسانی حقوق تو دور کی بات ، یہا ںتو نا انصافی ، اقرباء پروری، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ ، چوری ،چکاری، دن دہاڑے نوجوانوں کاسرعام قتل اورمعصوم بچوں پر جسمانی تشدد عروج پر ہے۔صاحبان اختیار بے فکری سے صرف دادِعیش دینے یا بڑے بڑے منصوبوںمیں ملک سے باہر ہی ہزاروں ، لاکھوں ڈالر کمیشن وصول کر نے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں انہیں اپنے وطن میںلوگوں کی بھوک اور غربت کی کیسے فکر ہوگی۔ اللہ کریم ہی ان کا مددگارہے۔ ایسی دردناک صورتحال میں چیف جسٹس ثاقب نثار ہی امید کی ایک آخری کرن نظر آتے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں کہ ’’میں مفاد عامہ کے کام مکمل کرنا چاہتاہوں، ورنہ مخالفین نعرے لگائیں گے‘‘۔ چیف جسٹس کا یہ جملہ معاملات کی نزاکت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ 
اگر ہم یہ کہیں کہ آج کا پاکستان مافیہ کا پاکستان ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اپنے وطن کے بارے میں ایسی بات کرنا اچھا نہیں لگتا لیکن حقیقت کو تسلیم نہ کرنا بھی بد عقلی ہے۔ حقیقت کو جانے بغیر منزل کا تعین مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ دنیا کا یہ فلسفہ ہے جس سے انکار کرنا بھی نادانی ہوگی۔
اکثرو بیشتر مبصرین اس بات پر خوش ہیں کہ نواز شریف عدالت میں ثبوت جمع کرائے جانے کے بعد کہ وہ اگست تک اپنے بیٹے کی دبئی فرم سے ایک لاکھ درہم مہینہ تنخواہ لیتے رہے ہیں، اب دفاعی طور طریقے اپنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا جارحانہ طرز تخاطب بھی کافی حد تک کم ہوگیاہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کے جملوں کا کہ پارلیمان سپریم ہے اور عدالتیں صرف آئین اور قانون کے اندر رہ کر ہی کام کرتی ہیں، خیر مقدم ہی نہیں کیا بلکہ اس کی حمایت میں بیان بھی دے ڈالا جو کہ قابل تعریف ہے اور جسے سراہا جانا چاہئے لیکن نواز شریف کا مطالبہ کہ وزیر اعظم نیب قوانین کو الیکشن تک کے لئے معطل کر دیں، سب کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ اگر پارلیمنٹ اس پر عمل پیرا ہوتی ہے تو ملک بحرانی صورتحال سے دو چارہوسکتاہے۔ نیب یا احتسابی عدالتیں جوکہ محنت اور لگن سے کام کررہی ہیں ،وہ لائق تحسین ہیں۔ اگر نیب کو کام سے روکا گیا تو کایا یکسر پلٹ جائے گی۔ یہ خطرناک بات ہوگی کیونکہ پھر ناجائز دولت کو چیک کرنے کی کاوشیں جو پچھلے ایک سال سے جاری ہیں ،انہیں بریک لگ جائے گا اور ملکی خزانے کا کوئی پرسان حال نہیںہوگا۔
جو بات قوم کی ہمت بڑھا تی ہے وہ ہے سینیٹ یا ایوان بالا میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ۔ قومی اسمبلی سے پاس کیا ہوا قانون، سینیٹ میں روک دیا جائے گا۔ اس لئے کہ آصف زرداری نے غیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ کر لائحہ عمل واضح کر دیا ہے کہ نواز شریف نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اس لئے اب ان سے مفاہمت یا دوستی نہیں ہو سکتی بلکہ اب تو جنگ ہی واحد حل ہے۔زرداری کے الفاظ کہ ’’نواز شریف!آپ مغل شہنشاہ ہیں، ہم آپ کو میدان سیاست سے باہر نکال کر چھوڑیں گے۔‘‘اب ایسا ممکن ہے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن جس بات کو یاد رکھنا چاہئے وہ ہے الیکشن کہ جس کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس نے علی ا لاعلان کہہ دیا ہے کہ ملک میں مارشل لانہیں لگے گا۔ اگر ایسا ہوا تو وہ صرف مستعفی ہو کر گھر چلے جائیں گے۔نہ عدالتی مارشل لا،نہ کسی اور قسم کا ، یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ 
قوم کے لئے یہ بہت بڑی خوش خبری ہے بلکہ اس کی ہمت بڑھاتی ہے کہ عوامی راج ہی ملک کو بچا سکتاہے بشرطیکہ عوامی راج صحیح معنوںمیں ہو۔ عوامی راج کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ ، نا انصافی، بدعنوانی، اقرباء پروری کی گئی اور غریبوں کا خیال نہیں رکھا گیا تو اس سے زیادہ بری بات اور ہو ہی نہیں سکتی۔ 
چیف جسٹس کے اس اعلان نے کہ انتخابات وقت ِ مقررہ پر ہی ہوں گے، سارے ابہام دور کردیئے۔ الیکشن کمیشن پوری طرح متحرک ہوچکا ہے، مردم شماری صحیح یاغلط پر بحث خود بخود بند ہوگئی ۔حلقہ بندیوں پر اعتراضات بھی تیزی سے سنے جارہے ہیں اور فیصلے بھی اسی صورت سے آرہے ہیں ۔صاف ظاہر ہے کہ بہانے بازی کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے  اور الیکشن کمیشن اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان سے عدالتی عملہ مانگ لیا گیاہے تاکہ انتخابات عدلیہ کے ماتحت ہو سکیں۔ کئی ہائی کورٹس نے تو اپنے افسران کی فہرست الیکشن کمیشن کو بھیجنا شروع کردی ہے گویا انتخابی عمل کا پہیہ چل پڑا ہے۔ اب شاید ہی یہ رک پائے ۔ انتخابی مہم بھی شروع ہوچکی ہے۔ 
بحث سمیٹتے ہوئے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ پاکستان میں ابھی سب کچھ نہیں بگڑا۔امید پر دنیا قائم ہے۔ پاکستان ابھی اتنا کمزور نہیں ہوا کہ اسے کوئی خطر ہ ہو، خطے کے ممالک پر نظر ڈالی جائے تو ہندوستان میں بھی نرنیدر مودی تکلیف میں نظر آتے ہیں۔ہاں بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام نظر آتاہے۔ اس کی معیشت بھی پاکستان سے بہت بہتر ہے۔ جنوبی کوریا اور جاپان کو جو خطے سے باہر ہیں ،وہاں بھی رشوت اور بدعنوانی کی وجہ سے کئی ایک وزیر اعظم نکالے گئے۔ کوریا کے صدر کو 24 سال کی سزا ہوگئی، کوئی بحران نہیں آیا۔ وہاں جمہوریت اور نظام ِ حکومت بغیر کسی بحران کے چل رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی اگر سپریم کورٹ اپنا کام کرتی رہی تو استحکام آجائے گا۔ دعا یہی ہے کہ چیف جسٹس اپنے مشن میں کامیاب ہوں۔ عوام ان کی طرف نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔
    *********

شیئر: