Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جہیز اخلاقی اقدار کے جنازے کا دوسرا نام

 معاشرے میں پنپنے والی برائیاں  انسانیت، رواداری، انسان دوستی، آپس میں  الفت و محبت اور بھائی چارگی کی لازوال دولت کو معاشرے سے  رخصت کر دیتی ہیں ۔ یہ انسان سے امن و سکون چھین کر اسے پریشانیوں اور مسائل کی دلدل میں دھکیل دیتی ہیں  .  جہیز کی لعنت بھی ایک ایسا ہی سماجی    ناسور  ہے جو  بڑی تیزی کے ساتھ ہماری سماجی زندگی کی ہڈیوں کو گھلاتاجا رہا ہے۔  رسمِ جہیز نے اپنے ساتھ سماجی تباہ کاری وبربادی کا جو نہ تھمنے والا طوفان برپا کیا ہے، اس نے  ہماری اخلاقی اقدار  کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ اگر لڑکی اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز لاتی ہے تو اس کے والدین اس قدر مقروض ہوجاتے ہیں کہ اس سے سبکدوشی کے لیے دن رات ایک کرکے اپنا چین و سکون برباد کرلیتے ہیں۔ اگر جہیز لڑکے والوں کے حسب منشا نہیں ہے تو لڑکی کو بے جا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور طعن وتشنیع کی بوچھاڑ کرکے اس کا جینا دو بھر کردیتے ہیں   . اسے جہیز کے نام پر ہراساں کیا جاتا ہے . صبح صبح آپ جب اخبار کی ورق گردانی کرتے ہیں تو جلی حرفوں میں دل دہلانے والی سرخیاں زینتِ نگاہ بنتی ہیں کہ فلاں جگہ کم جہیز لانے کے جرم میں بدن پر تیل ڈال کر آگ لگا دی گئی تو فلاں مقام پر گلا گھونٹ کر قتل کردیا گیا اور فلاں جگہ جہیزی بھیڑیوں کی ایذا رسانی سے تنگ آکر عورت نے خود ہی موت کو گلے لگا لیا۔یہ سلسلہ زور پکڑتا جارہاہے، نہ ملک کا قانون ان بے گناہوں کا مداوا بن رہاہے اور نہ ہی حقوقِ نسواں کے علم بردار ادارے تحفظ فراہم کررہے ہیں۔جہیز کے بھیڑیے سے چھٹکارا پانے کے لیے بہت سے والدین اپنی لخت جگر کو بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں  . رسم جہیز نے  کثرت طلاق کی صورت میں  ہمارے سماج میں تباہی وبربادی کے  دروازے کھولے ہیں .  آج کثرتِ جہیز کی لالچ میں طلاق دے کر اسلامی اصولوں  کا کھلا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ اسلام نے ناگزیر حالت میں مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے ناجائز مطالبات کو منوانے کے لیے اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے، ان میں اللہ کے نزدیک طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔  جہیز کے  اس لعنت اور اس کی تباہ کاریوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصلاح کی ضرورت ہے . 
 

شیئر: