Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاتب وحی ،سیدنا امیر معاویہؓ

 جب سے تاریخ کا قلمدان متعصب مزاج لوگوں کے ہتھے چڑھا ہے، جتنی بے انصافی اس عظیم المرتبت شخصیت سے برتی گئی شاید کسی اور سے اتنی کی گئی ہو
 

* * * مولانا محمد الیاس گھمن ۔سرگودھا* * *
  مدینہ طیبہ کے قریب ایک میدان"بدر" ہے جہاں حق و باطل کا سب سے پہلا معرکہ بپا ہوا۔ شمع اسلام کو گْل کرنے والے کئی ابدی بدبخت خاک و خون میں تڑپ تڑپ کر بالآخر خدائی قہار کے روبرو جا پہنچے۔ کفر کے غرور کا سر نیچا ہوا۔رسول اللہ کے شیر دل سپاہیوں نے مشرکوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا۔اس رزم گاہ کی سرزمین نے بیسیوں دشمنان اسلام کے خون کو چوسا۔ انہی میں عرب کے معروف قبیلہ بنو امیہ کے خاندان کے نامی گرامی وڈیرے خدائی لشکر کی تلواروں سے گھائل ہوئے ،صحابہ کرامؓ کے نیزوں کی انیوں پر اس خاندان کے سردار عتبہ ، ولید اور حنظلہ کو اچھال دیا گیا اور یوں دشمنان اسلام اپنے انجامِ بد کو جا پہنچے۔یہ خاندان 2 دھڑوں میں تقسیم ہوا ، بعض دین کی دشمنی میں اپنی جان کی بازی ہار گئے اور بعض دین دوستی میں حیات جاوداں پا گئے۔ اس دوسرے فریق میں بنو امیہ کا وہ خوش نصیب شخص جسے دنیا جرنیل اسلام ، کاتب وحی ، فاتح عرب وعجم ، امام تدبیر و سیاست اورسب سے بڑی اسلامی ریاست کے حکمران کے تعارف سے جانتی ہے، وہ سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما ہیں۔
    جب سے تاریخ کا قلمدان متعصب مزاج لوگوں کے ہتھے چڑھا ہے،حقائق کو مسخ کر کے جتنی بے انصافی اس عظیم المرتبت شخصیت سے برتی گئی شاید کسی اور سے اتنی کی گئی ہواس لیے ان کے شان و مقام عظمت اور سنہری کارناموں کو بیان کرنا جہاں ہماری عقیدت کا مسئلہ ہے وہاں پر تاریخ سے انصاف کا تقاضا بھی ہے۔
    ولادت:    
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں راجح قول یہ لکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ بعثت نبوت سے5برس پہلے پیدا ہوئے۔
     نام و نسب :
    حافظ ابن حزم نے جمہرۃ الانساب میں آپ کا نسب یوں لکھا ہے:
    ’’معاویہ بن ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔‘‘
    نسبی تعلقات :
    آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان کا خاندانِ نبوت سے بنو ہاشم سے بہت گہرا تعلق ہے۔ امام ابن عساکر نے "تاریخ مدینہ دمشق" میں لکھا ہے کہ حضرت معاویہ کی ہمشیرہ سیدہ رملہ(ام حبیبہ) بنت ابو سفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ہیں۔
     ابو جعفر بغدادی نے"کتاب المحبر"میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم زلف تھے۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہن قریبہ صغریٰ حضرت امیر معاویہ کے نکاح میں تھیں۔
     مصعب زبیری نے" نسب قریش "میں لکھا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خوشدامن (ساس )سیدہ میمونہ حضرت امیر معاویہ کی ہمشیرہ ہیں اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند شہید کربلا حضرت علی اکبر کی والدہ لیلیٰ بنت مرہ  انہی میمونہ کی بیٹی ہیں۔اس کے علاوہ بھی علمائے انساب نے کئی تعلقات بیان کیے ہیں۔
    قبول اسلام :
    حافظ ابن حجر نے" الاصابہ" میں حضرت امیر معاویہ کا اپنا فرمان نقل کیا ہے کہ میں صلح حدیبیہ کے بعد 7 ہجری میں عمرۃ القضا سے پہلے اسلام قبول کر چکا تھا اور ابن کثیر نے" البدایہ" میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے اسلام کا اظہار فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مرحبا کہا۔
    مکا رم اخلاق :
     امام ذہبی نے تاریخ اسلام میں لکھا ہے کہ آپ حلم و بردباری اور اپنے اعلیٰ اوصاف و اخلاق کے اعتبار سے اپنے ہمعصر لوگوں میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے چنانچہ قبیصہ بن جابر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی اختیار کی۔ میں نے ان سے زیادہ حلم بردبار اور جہالت سے دور رہنے والا کوئی نہیں دیکھا چنانچہ امام ابن عساکر نے اپنی" تاریخ "میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مروت کے بارے میں اپنا فرمان نقل کیا ہے کہ مروت 4 چیزوں میں ہوتی ہے: اسلام میں پاکدامنی ، مال کا صحیح اور جائز طریقے سے حاصل کرنا ، اقرباء کی رعایت کرنا اور پڑوسیوں سے تعاون کرنا۔
    خشیت الہٰی :
    امام ترمذی نے اپنی سنن میں حدیث ذکر کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے جلاد شُفیا اصبحی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ایک حدیث آپ کو سنائی کہ قیامت کے دن عالم ، مجاہد اور سخی سے حساب کتاب لیا جائے گا اور یہ لوگ اپنی فاسد نیتوں کی وجہ سے اس میں ناکام ہوجائیںگے تو ان کو جہنم کی بھڑکتی آگ میں ڈالا جائیگا۔ یہ سن کر حضرت امیر معاویہ بہت روئے بہت روئے یہاں تک کہ حاضرین مجلس کو یہ خیال ہونے لگا کہ شاید آپ اسی حالت میں فوت ہوجائیں گے۔ پھر تھوڑی دیر بعد جب کیفیت سنبھلی تو آپؓ نے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت فرمائی۔
    امام دولابی رحمہ اللہ نے" کتاب الکنی"ٰ میں لکھا ہے کہ ابو مریم ازدی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنایا :
    ’’ جس شخص نے کسی حاحت مند کی ضرورت کو پورا نہ کیا اور حاجت مند پر اپنا دروازہ بند کر لیا تو اللہ تعالیٰ بھی آسمان سے اس کی حاجت روائی کا دروازہ بند کر دیں گے۔‘‘
     یہ فرمان سن کر آپؓ رضی اللہ عنہ اتنا روئے کہ اوندھے گر گئے اور اپنے دربان سعد کو بلوایا اور ابو مریم سے کہا کہ حدیث دوبارہ بیان کریں۔ انہوں نے دوبارہ بیان کی تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دربان سے کہا :سعد میں تمہیں یہ ذمہ داری سونپتا ہوں کہ جب کوئی حاجت مند آئے تو اسے میرے پاس لے آنا پھر اللہ تعالیٰ س کے حق میں میری زبان پر جو فیصلہ چاہیں گے ،کریں گے۔
    زبان نبوت سے اعزاز:
    امام بخاری رحمہ اللہ نے" تاریخ کبیر" میں عبدالرحمان بن ابی عمیرہ مُزَنی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    ’’ اے اللہ !تو معاویہ کو ہادی اور مہدی بنا، اسے بھی ہدایت نصیب فرما اور اس کے ذریعے دوسروں کو بھی ہدایت عطا فرما۔‘‘
     امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں حضرت عرباض بن ساریہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حضور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
    ’’ اے اللہ !معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطا فرمااور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔‘‘
    اسی طرح دیگر کئی محدثین نے امیر معاویہ کے فضائل و مناقب پرکافی ساری احادیث ذکر فرمائی ہیں۔
    کلام اللہ کی کتابت :
    ساری انسانیت کی تاصبح قیامت رہنمائی کے لیے بنیادی طور پر جس کتاب کو اولیت حاصل ہے وہ قرآن کریم ہے۔ظاہر بات ہے کہ جب اس کو لکھا جاتا تھا تو اس کیلئے قابل اعتماداور پڑھے لکھے اشخاص کا تقرر ہوتا چنانچہ دیگر محدثین کی طرح امام ہیثمی نے بھی اپنی کتاب "مجمع الزوائد "میں عبداللہ بن عمرو کے حوالے سے لکھا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کلام اللہ شریف کی کتابت فرمایا کرتے تھے۔
    غزوات میں شرکت :
    حضرت علی بن برہان الدین حلبی نے" سیرت حلبیہ" میں لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ  غزوہ حنین میں نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر معرکہ لڑا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو ایک سو اونٹ اور 40 اوقیہ چاندی بھی عنایت فرمائی۔ فتح مکہ 8 ہجری رمضان میں پیش آیا، اس کے بعد غزوہ طائف اورغزوہ حنین میں امیر معاویہ آپؓ کے ہمرکاب رہے۔
    قاتلانہ حملہ :
    امام ابن کثیر نے "البدایہ" میں لکھا ہے کہ 3خارجی عبدالرحمان ابن ملجم الکندی ، برک بن عبداللہ تمیمی اور عمرو بن بکر تمیمی نے حرم کعبہ میں بالترتیب حضرت علی ، امیر معاویہ اور عمرو بن عاص کے قتل کا منصوبہ بنایا اور 17 رمضان 40 ہجری کی تاریخ متعین کی۔ ابن ملجم کوفہ آیا اور حضرت علی المرتضیٰ پر فجر کی نماز سے پہلے حملہ کیا جس کی وجہ سے آپ جاں بر نہ ہو سکے او ر21 رمضان کو شہادت کا جام نوش کر گئے۔
     برک بن عبداللہ شام پہنچا اور حضرت امیر معاویہ پر خنجر سے حملہ کیا جس کی وجہ سے آپ شدید زخمی ہوئے۔ فتنہ کے سد باب کے لیے برک بن عبداللہ کو قتل کردیا گیا اسکے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی نماز کے مقام پر حفاظتی انتظام کیا جبکہ مصر میں عمرو بن بکر بھی اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق پہنچا۔ اتفاقاً اس دن حضر ت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے اور نماز کے لیے خارجہ بن حبیب رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ خارجی نے خارجہ بن حبیب کو عمرو بن عاص سمجھ کر شہید کر دیا۔
    سلسلہ فتوحات :  
    حضرت امیر معاویہؓ کی حکمت عملی اور جوانمردی کے بیسیوں واقعات کتب تاریخ میں موجود ہیں۔ اپنی مدبرانہ سیاسی سوچ اور حکمت عملی کی بدولت آپ نے تقریباً 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کی۔ کئی ملکوں کے ملک ، شہروں کے شہر ،جزیروں کے جزیرے ، قلعوں کے قلعے اور علاقوں کے علاقے آپ کے دور میں فتح ہوئے اور وہاں اسلامی ریاست کو فروغ دیا گیاجن میں صرف چند نام یہ ہیں: بلاد افریقہ ، بلاد سوڈان ، قبرص ، طرابلس ، قیروان ، جلولا، قرطاجنہ ، قلعہ کمخ ، قسطنطیہ ، جزیرہ ارواد ، جزیرہ روڈس وغیرہ۔ باقی خراسان ، ترکستان ، کابل ، بخارا ، سمرقند ، بلخ اور طبرستان وغیرہ پر معرکے جاری رہے۔
    شہادت عثمان ؓ  کا المناک سا نحہ :
    خلیفۃ الرسول سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بلوائیوں نے شورش بپا کی اور آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ اس موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی کی خدمت میں عرض کیاکہ آپ شام تشریف لائیں۔ وہاں آپ کی جان کا تحفظ بھی ہوگا اور وہ لوگ اطاعت گزار بھی ہیں۔حضرت عثمان نے قربِ نبی میں رہنے کو ترجیح دی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار بالخصوص حضرت علی المرتضیٰ ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے اس نازک صورتحال پر مشورہ کیا اور خلیفہ رسول کی حفاظت کی بھر پور تاکید فرمائی۔ اس کے بعد آپؓ شام چلے گئے۔
     امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے" البدایہ والنہایہ" میں لکھا ہے کہ مختلف علاقوں سے فسادی اور سرکش لوگ (جو بعد میں چل کر خوارج کہلائے)مدینہ طیبہ پہنچے اور حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ حالات یہاں تک سنگین ہو گئے کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا مسجد جانا بھی دشوار ہوگیا۔ آپؓ نے شام میں حضرت امیر معاویہ ، بصرہ میں عبداللہ بن عامر اور کوفہ کے والی کو ان حالات کی اطلاع بھیجی۔ اس پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ فہری کی قیادت میں ایک فوجی دستہ مدینہ طیبہ حضرت عثمان کی حفاظت کیلئے روانہ کیا۔ابھی یہ دستہ راستے میں تھا کہ بلوائیوں کو اس کی خبر ہوگئی اور ان ظالموں نے حضرت عثمان کو شہید کر دیا ۔
    آثا ر حرم کی نگہد اشت:
    مورخ بلاذری نے" فتوح البلدان" میں لکھا ہے کہ مکہ مکرمہ میں حدود حرم کے نشانات تقریباً مٹ چکے تھے۔ اس حوالے سے سیدنا امیر معاویہ ؓنے مروان بن حکم کو شاہی مراسلہ جاری کیا کہ حضرت کرز بن علقمہ خزاعی رضی اللہ عنہ ان حدود سے خوب واقف ہیں اس لیے ان کی رہنمائی میں آثار و حدود حرم کی نشان دہی کرائیں اور ان کی تجدیدکرائیں تاکہ لوگوں کو حرم کی حدود کا پتہ چلے۔ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ میں بھی آثار نبویؐ  کو باقی رکھنے کے لیے آپؓ نے انتظام کروایا۔ چنانچہ مسجد نبویؐ کے اردگرد گلی کوچوں میں پختہ فرش لگوائے اور جس جس مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزے صادر ہوئے،ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی رہنمائی میں وہاں پر بعض یادگار تعمیرات کیں۔
    رعایا کی خبر گیری :
    کسی بھی حکمران کے لیے سب سے اہم بات رعایا کی خبر گیری اور ان کی ضروریات کو منظم طور پر پورا کرنا ہوتا ہے چنانچہ ابن عساکر نے اپنی" تاریخ" میں لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے رعایا کی خبر گیری کا پورا نظام مقرر کیا ہوا تھا۔ ہر ہر قبیلے میں ایک شخص کو متعین فرماتے جو قبیلے والوں کے حالات اور ضروریات کی مکمل خبر گیری کرتا۔ وہ ہر روز اپنے قبیلے والے سے یہ سوال کرتا کہ :
    « کیا کوئی بچہ پیدا ہوا ہے ؟
     « قبیلہ میں کوئی نئی بات پیش آئی ہے ؟
    « قبیلہ میں کوئی مہمان آیا ہے ؟
    «  اگر مہمان آیا ہے تو اس کی ضروریات کیا ہیں ؟
    اس کے بعد وہ شخص سرکاری دفتر پہنچتا ، بچہ کا نام اور دیگر کوائف ایک رجسٹر میں درج کرتا اور ان کی ضروریات کا مناسب انتظام کرنے کے لیے وظیفہ مقرر کرتا۔
    آباد کاری اور فوجی مراکز:
    مفتوحہ علاقوں میں حضرت امیر معاویہ ؓنے آباد کاری کی داغ بیل ڈالی اور مختلف ممالک میں اسلامی افواج کے لیے چھاؤنیاں اور مراکز قائم کیے۔ اس سلسلے میں شام کے ساحل پر قلعہ جبلہ ، اسی طرح طرح مرعش ، قیروان،الاذقیہ ، انطرطوس، مرقیہ اور بلنیاس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہرعلاقے کی اندرونی صورتحال کوجرائم سے روکنے اور پرامن رکھنے کے لیے پولیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپؓ نے اس کے بھی پورے انتظامات فرمائے۔
    نہروں اور چشموں کی منصوبہ  بندی :
    آپ کے دور میں محکمہ آبپاشی پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور عوام کی سہولت کے پیش نظر نہری نظام کی بنیاد ڈالی گئی چنانچہ عراق میں نہر معقل(صحابی رسول حضرت معقل بن یسار نے اس کا افتتاح کیا تھا )، مدینہ طیبہ میں میدان احد کے قریب" قناۃ معاویہ "کے نام سے نہرکھدوائی گئی۔ اسی طرح مدینہ طیبہ سے تقریباً 20 میل دور نشیبی علاقے میں چوپایوں کی سہولت کے لیے ایک بند بنوایا جس میں بارش کا پانی جمع ہوتا اور مویشی اس سے فائدہ اٹھاتے۔
(جاری ہے)   
مزید پڑھیں:- - - -سنت رسول کے ساتھ حقارت انگیز لہجہ

شیئر: