Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطر میں یوسف القرضاوی کی زہر افشانی

 عبدالرحمن الراشد۔ الشرق الاوسط
قطر میں متعین روس کے سابق سفیر ولادیمر ٹیٹو رینکو نے قطر میںا پنے تجربات سے متعلق سفارتی عمل کی بھولی بسری یادوں کے ضمن میں الاخوان کے رہنما یوسف القرضاوی کے ساتھ ہونے والے اپنے دھماکہ خیز مکالمے کا تذکرہ کیا ہے۔
روسی سفیر نے ”روسیا الیوم“ نامی چینل کے ایک پروگرام میں بتایا کہ یوسف القرضاوی نے مجھ سے کہا تھا ”روس کو یہ حقیقت ماننا پڑیگی کہ عرب ممالک کے خونی اورفاسد حکمرانوں کو اقتدار سے نکلنا ہوگا۔ عرب اقوام قدیم حکمرانوں سے تنگ آچکی ہیں۔ انکی جگہ سماجی طاقت کو اقتدار سنبھالنا ہوگا۔ جب یہ ممالک اپنے زائد المیعاد حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے تب یہ ممالک ہماری حقیقی روایتوں پر قائم خوشحال معاشرے تشکیل دینگے“۔
روسی سفیر کا کہناہے کہ میں نے یہ سن کر ان سے دریافت کیا کہ ”معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ ہمیشہ جمہوریت کی تعبیر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کا نظام جہاں آپ سکونت پذیر ہیں جمہوری ہے؟ میری مراد قطر سے ہے اور قطر کے وہ پڑوسی ممالک جہاں نہ تو سیاسی پارٹیاں ہیں اور نہ پارلیمانی نظام ہے بلکہ خالص شاہی نظام انکی پہچان ہے۔ تو کیا یہ جمہوریت ہے؟ “ یوسف قرضاوی نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ”نہیں، ان کا نمبر بھی آئیگا۔“
روس کے سابق سفیر نے مذکورہ چینل کے پروگرام ”یادوں کا سفر“ میں اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ”میں نے اپنا سوال دہراتے ہوئے کہا:کیا آپ کی مراد یہ ہے کہ قطر کے حکمرانوں اور اسکے امراءکا دھڑن تختہ بھی ضروری ہے؟“
یوسف القرضاوی نے جواب دیا ”قطر کے امراءکو شروع میں اپنا کرداراد ا کرنا ہوگا، آگے چل کر قطر کے عوام انکا دھڑ ن تختہ خود کردینگے۔“ 
روسی سفیر نے اس یقین کا اظہار کیا کہ قطر میں یوسف القرضاوی کو اثر و نفوذ حاصل ہے ۔ وہ ایوان شاہی سے رابطہ کرکے ٹی وی اسٹیشن کو مزید گھناﺅنے مناظر پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے سنے گئے۔ انہوں نے خود میرے سامنے رابطہ کرکے کہا ”ایسے مزید مناظر پیش کئے جائیں جن میں زیادہ سے زیادہ خونریزی اور بچوں کی ہلاکت کے زیادہ واقعات ہوں۔“
اناﺅنسر نے یوسف قرضاوی کا رابطہ سن کر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ” واقعی یہ تو ہیبت ناک بات ہے۔“
روس کے سابق سفیر نے بتایا کہ انہوں نے ماسکو کے حکام کو اس واقعہ سے مطلع کرتے ہوئے اپنا یہ تاثر بھی قلمبند کرکے بھیجا کہ یوسف قرضاوی قطر کے قائدین کو پروپیگنڈہ میں استعمال کرنے کی بابت ہدایات جاری کرتے ہیں۔
روس کے سابق سفیر کی مذکورہ کہانی اور ان کے تاثر ات سے ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ انہوں نے جو کچھ بتایا وہ ہمارے لئے نیا نہیں تھا البتہ نئی بات یہ ہے کہ ایک غیر جانبدار ریٹائرڈ سفارتکار نے اس حوالے سے اپنی شہادت قلمبند کرائی ہے۔ انہوں نے قرضاوی سے جو کچھ سنا ،القرضاوی کے پیروکار کھلم کھلا اس قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرح سے روسی سفیر کی شہادت الاخوان کے خلاف نہیں بلکہ ان کے حق میںجاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظام حکومت کے حوالے سے انکا تصور نئے اندازکا ہے۔ وہ جمہوریت کے ذریعے سیاسی شراکت کے نظام میں یقین رکھتے ہیں۔
یہاں بحث کی گنجائش نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ الاخوان نئی سیاسی تعبیرات استعمال کررہے ہیں۔ یہ تعبیرات انکے مذہبی فکر کی نمائندہ نہیں بلکہ گمراہ کن تعبیرات ہیں۔ انہوں نے 2011ءکے دوران عرب بہار کے ایام میں اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے سیاسی مذہبی منصوبہ پس پشت ڈال دیا تھا اور انکی گفتگو کا محور 3 الفاظ ”آزادی، حقوق اور انتخابات“ بن گئے تھے۔ الاخوان جمہوریت کو اقتدار کے حصول کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ انکا حال ایران کی خمینی والی جمہوریت سے مختلف نہیں۔ خمینی نے سب سے پہلے اُن دسیوں ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا جنہوں نے انقلاب برپا کرنے میں انکے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا۔ 
خلیج اور قطر سے متعلق قرضاوی کے جو جملے روسی سفیر نے بیان کئے ہیں وہ لگ بھگ ویسے ہی ہیں جیسا کہ مذہبی جماعت نے شاہ کے حوالے سے استعمال کئے تھے۔ الاخوان نے جمہوریت کے گھوڑے پر سوا رہوکر غزہ میں اقتدار حاصل کیااور اسے ایرانی چھاﺅنی بنادیا۔ اخوان نے سوڈان میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے صادق المہدی کی منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کیا۔ حق اور سچ یہ ہے کہ انتہا پسندانہ افکار کی علمبردار یہ جماعتیں ہمیں ان شاءاللہ کسی فریب میں نہیں ڈال سکتیں۔
میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے یہ ضرور کہوںگا کہ روسی سفیر نے قرضاوی سے متعلق جو بات کہی ہے کہ وہ قطر کی حکومت چلا رہے ہیں وہ درست نہیں البتہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ قطر کے سیاستدان اپنے خلاف سازش کرنے والوں کے حوالے سے غفلت کے شکار کیوں ہیں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی نہ تو سائنسی تشریح کی جاسکتی ہے اور نہ تاریخی اعتبار سے اس کی معقولیت سمجھ میں آسکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: