Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ وقت دور نہیں جب ایک خاتون وزیر بنیں گی

 محمد رضا نصراللہ ۔ الریاض
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جب یہ کہا کہ ”ہم سعودی عرب میں 1979ءسے ماقبل کی معمول کی زندگی گزار رہے ہیں، اسلام نے ہمیں سیاہ عبائے کا پابند نہیں بنایا۔ خواتین سر ڈھانپنے کیلئے اپنے طور پر سیاہ رنگ کا عبایہ اختیار کئے ہوئے ہیں“۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے سی بی ایس ٹی وی کو ایسے وقت میں انٹرویو دیا تھا ،جب وہ امریکہ کے مشہور سفر پر جارہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ” ہم نے خواتین کو حقوق دینے کے سلسلے میں اچھا خاصا سفر طے کرلیا ہے۔ بہت زیادہ کام کرنا باقی نہیں ۔ ہم جلد ہی خواتین اور مردوں کی تنخواہ یکساں مقرر کرنے والا قانون بنائیں گے“۔ ولی عہد نے یہ بھی کہاتھا کہ ”سعودی عرب میں الاخوان کے رہنماﺅں نے متعدد اسکولوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ ہم اپنے تعلیمی نظام کو انتہا پسندی کا لقمہ¿ تر نہیں بننے دیں گے۔ ہم اپنے اسکولوں سے الاخوان کے باقی ماندہ افکار کو جڑ سمیت اکھاڑ پھینکیں گے“۔ 
اگر آپ 1989ءکے وسط میں ”حروف وافکار “ کے صفحہ پر میری تحریریں پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ میں نے ایک کالم کا عنوان باندھا تھا ”تاکہ ہمیں اپنے دانت نہ تڑوانا پڑ جائیں“۔ اگر آپ اس کالم کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے مذکورہ انٹرویو میں جو کچھ کہا ہے ،اسی کی جانب اشارہ سماجی تبدیلی کے حوالے سے اس کالم میں کردیا گیا تھا۔ بنیادی طور پر اس وقت تبدیلی کا پہیہ حرکت میں آچکا تھا۔ تیل سے ہونےوالی آمدنی کو حکومت ساتویں دہائی کے وسط میں بنیادی ڈھانچے پر صرف کرنے لگی تھی۔سعودی معاشرہ عرب ، علاقائی و بین الاقوامی تبدیلیوں کیلئے چو پٹ کھل چکا تھا۔ اکتوبر 1973ءکی جنگ کے بعد بدلاﺅ آنے لگا تھا۔
مجھے وہ دن اور اُس سے پہلے کے دن اچھی طرح سے یاد ہیں۔ میں نے کنگ سعو د یونیورسٹی میں تعلیم کیلئے درخواست دی تھی۔ اس وقت ہمارا معاشرہ عرب دنیا میں تبدیلی کے کافی قریب ہوچکا تھا۔
یہ درست ہے کہ ریاض، جدہ یا عنیزہ یا قطیف کا معاشرہ موروثی ثقافتی خصوصیات کا مالک تھا ۔ یہ معاشرہ بھی اپنے اطراف ہونے والی ثقافتی تبدیلی اور آگہی کے حوالے سے رونما ہونے والے تغیرات سے ہم آہنگ ہونے لگا تھا۔ مقامی روایات اور تصرفات پر اس کا عکس پڑنے لگا تھا۔ میں اس وقت نوجوان تھا ۔ مجھے الوزیر اسٹریٹ جس کی بابت ایک بار میں نے ایک کالم بھی قلمبند کیا تھا، پرکشش لگتی تھی۔ میں نے کالم کا عنوان ”بلوری فٹ پاتھ“ رکھا تھا۔ اس سڑک پر آمد ورفت اور آنے جانے والوں کا ماحول عرب ممالک اور بین الاقوامی دارالحکومتوں کی سڑکوںسے ملتا جلتا ہوگیا تھا۔ الوزیر اسٹریٹ بیروت کی الحمراءیا قاہرہ کی فواد اسٹریٹ یا پیرس کی شینزلیزے اسٹریٹ کے مماثل ہوگئی تھی۔ وہاں ریستوران ، اخبارات کے دفاتر، عربی اور غیر ملکی خبررساں ادارو ںکے دفاتر کھلے ہوئے تھے۔ ہم وہاں گھومتے پھرتے تھے۔ شام کے وقت اس سڑک پر چکر لگاتے تھکتے نہیں تھے۔ وہاں ہمیں شاندار ملبوسات دیکھ کر اچھا لگتاتھا۔ انواع و اقسام کی خوشبو یات سونگھ کر خوشی محسوس کرتے۔
دوسری جانب یونیورسٹیوںکی فیکلٹیوں میں اسلامی جماعتوں نے سر ابھارنا شروع کردیا تھا۔ الاخوان سے منسوب افراد انکی رہنمائی کررہے تھے۔ یہ لوگ مصر اور شام سے لائے گئے تھے۔ یہ یونیورسٹی کے طلباءکو ہاسٹل میں رہنمائی فراہم کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ریڈیو سے نشر کئے جانے والے پروگرام الاخوان کے افکار پیش کیا کرتے تھے۔ انکا محور سید قطب کی تحریریں ہوتی تھیں۔ ذرائع ابلاغ میں مارکسزم اور قومی کلچر پر زبردست تقریریں ہوتی تھیں۔
میں نے تقریباً2عشرے قبل خواتین کے امور سے متعلق ایک وزارت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔آرزو ہے کہ جلد ہی منسٹرز کونسل میں کسی خاتون کو وزیر کی شکل میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھوں ۔ مجلس شوریٰ کے ایوان میں خواتین اپنے قدم جما چکی ہیں۔ جولائی کے شروع میں خواتین ہماری سڑکوں پر اطمینان و سکون اور بے باکی کے ساتھ گاڑیاں چلائیں گی۔ کاش وہ دن بھی جلد آجائے جب وہ وزار ت کا قلمدان سنبھالیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: