محسوس کررہی ہوں ،کنیز کی آرزوئیں بڑھتی جارہی ہیں،ناز نے فلمی انداز میں ثانیہ کی پریشانی کو مذاق میں ٹال دیا،ماہ کے اختتام پر جب تنخواہ ملی توثانیہ کی آنکھیں نم ہوگئیں
ناہیدطاہر ۔ ریاض
قسط 5
ماہ کے اختتام پر جب تنخواہ ملی توثانیہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ پہلی اجرت بھی زندگی کے انوکھے و دلچسپ تجربات میں سے ایک ہوتا ہے۔
’ میں سمجھ سکتی ہوں ہر کسی کی یہی کیفیت ہوتی ہے جس سے تم جٹ رہی ہو‘۔۔۔ندا کوثانیہ کے احساسات کاعلم ہوگیاتھا۔
’اس تنخواہ کی منصوبہ بندی تو کی ہوگی۔‘؟وہ سراپاسوال تھی۔پھرخودہی جواب بھی دے دیا ۔
’سب سے پہلے پھول چڑھانا ،
ندا تم نہیں بدلوگی۔۔۔؟ثانیہ نے تیز نگاہوں سے ندا کو گھورا۔ ندا بدعتی تھی اور ثانیہ مسلسل اسے شرک پرستی اور گمراہی سے روکتی آئی تھی۔
پہلی تنخواہ ہے۔۔۔۔۔۔اگر یہ کردیگی تو پیسوں میں برکت رہے گی۔
شٹ اپ۔۔۔!!!
غصہ کیوں ہوتی ہو۔۔۔۔بس ایسے ہی کہ دیا۔وہ زچ ہوگئی۔
’گڈ‘۔ثانیہ مسکرائی۔
رضا کچھ دوری پر کھڑا دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔اسے ثانیہ پر رشک ہونے لگا۔ثانیہ کی دوستی نے ندا کی زیست کو کافی حد تک فہم و فراست سے ہمکنار کیا تھا ، وہ سوچتی،ایک نیک انسان کی دوستی مشک کے برابر ہوتی ہے جو بدن کے ساتھ ساتھ روح کو بھی معطر کردیتی ہے۔!!!!
’میراسوال باقی ہے ، اس پہلی تنخواہ کا کیا کروگی ‘؟ندانے ایک بارپھراسے تنگ کیا۔
’بازار سے نئی سینڈل خرید لائیں گی اور کیا‘۔ رضا جان بوجھ کر مضحکہ خیز لہجے میں کہتاہواپاس سے گزرگیا۔
میں کہتی تھی نا ! یہ بندہ بس تمھاری کھوج کھاج میں لگا رہتا ہے……… !!!!ندا نے حیرت سے اچھل کرکہا۔جواب میں ثانیہ نے سختی سے ندا کے بازو پر چٹکی بھری۔
’اف………‘ نداکی چیخ فضا میں تیرگئی۔اب میں نے کیا ،کیا؟
احساس شرمندگی تلے ثانیہ کی پیشانی عرق آلود ہوگئی اور آنکھوں کے گوشے تیزی سے بھیگنے لگے۔وہ گھومی اور غصے سے سرخ رضاکوسرزنش کی۔
’بزرگوں کی دولت کاتکبر ہے ناں! دماغ میں اسی طرح کی خرافات آتی رہیں گی۔خود کے پیروں پر کھڑے ہوجائیں تب آٹا دال کی اہمیت اور بنیادی ضروریات کے زخم سمجھ آئیں گے‘۔۔
یار وہ اپنے ہی پیر پر کھڑا ہے۔ ندا چہرے پر لگی محدب عدسہ نما عینک کو درست کرتی ہوئی احمقانہ انداز میں گویا تھی ، یہ سن کررضا نے زور سے قہقہہ لگایا۔اس سے پہلے کہ دوسری جانب سے کوئی جوابی حملہ ہوتا ندا ،ثانیہ کی کلائی تھام کر آگے بڑھ گئی۔
’بہت مغرور ہو۔‘ رضا اندر ہی اندر خار کھاتا ہوا بڑبڑایا۔۔۔۔۔لیکن رضا کی نظریں تمہیں حصار میں لے چکی ہیں۔۔۔۔بچ کررہنا۔!!!
********
ثانیہ پاگل ہوچکی تھی جو جوتوں کی دکان سے واقعی آدھی درجن چپلیں خرید لائی۔ناز حیرت سے ثانیہ کو تکنے پرمجبورہوگئی۔
’ دیدی اتنی ساری چپلیں؟ آدھی تنخواہ تو آپ نے ان پرخرچ کر دی ‘ جبکہ ابھی میری اوربھائی کی فیس باقی ہے، ابو کے علاج کے لئے بھی کچھ رقم ضروری ہوتی ہے۔ گھر کے اخراجات وغیرہ۔!!!
بھلا ان تمام کی تکمیل کیسے ہوگی‘؟نازکی حیرانی دیدنی تھی۔
’ناز ! پتہ نہیں مجھے کیا ہوگیا۔میں نے زندگی میں خود کو اتنا لاچار محسوس نہ کیا ،جوان دنوں کررہی ہوں۔مجھے رہ رہ کر اپنی مفلسی پر رونا آتا ہے۔ثانیہ کی پریشانی اس کے چہرے سے ہویداتھی۔
’کسی نے کچھ کہہ دیاہے کیا‘؟ناز سراپاسوال ہوگئی۔
’پتہ نہیں کیوں چند دنوں سے اپنی تقدیر پر شکوہ کرنے کو جی چاہ رہاہے۔کاش ہم امیر ہوتے! ہماری آرزوئیں یوں پامال نہ ہوتیں‘!ثانیہ کے لہجے میں تاسف تھا۔
’محسوس کررہی ہوں ،کنیز کی آرزوئیں بڑھتی جارہی ہیں‘۔ناز نے فلمی انداز میں ثانیہ کی پریشانی کو مذاق میں ٹال دیا۔وہ جانتی تھی کہ ثانیہ بہت زیادہ حساس طبیعت کی مالک ہے۔ کسی کی چھوٹی سی بات بھی اس کے وجودکو ریزہ کرجاتی ہے۔
’تم نہیں سدھروگی‘۔ثانیہ بے اختیار مسکرا دی۔
’یوں ہی ہنستی رہیں ، بہت پیاری لگتی ہیں۔۔۔۔ منہ بسورنا چھوڑ دیں، بالکل ہٹلر کلثوم لگتی ہو‘۔ناز نے ایک نیاشگوفہ چھوڑا۔
’اب یہ بھی بتلادوکہ یہ ہٹلر کلثوم کون ہے۔؟ ثانیہ نے کھل کر ہنستے ہوئے پوچھا۔
’ یہ دادی کا نام ہے جو کل ہی ابو نے بتایاتھا۔‘ناز نے انکشاف کیا۔
’ارے ان کا نام تو۔۔۔۔۔۔۔۔!
’چنگیزخان تھا۔اور ہے بھی۔بس اصلی نام کل پتہ چلا‘۔ناز نے ثانیہ کی بات کودرمیان سے کاٹ کرخودہی وضاحت کردی۔
’اف ناز ! تْو ایک دن ابو سے ضرورمار کھائیگی‘۔ثانیہ کوبزرگوں کی توہین گوارانہیں تھی سو وہ سرزنش کاکوئی موقع گنوانانہیں چاہتی تھی۔
’کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس کے بعد بھی دادی ہٹلر اور چنگیزخان ہی رہیں گی۔ناز اپنی بات سے ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
’زلفی اب بس کر۔۔۔۔۔۔!میرے پیٹ میں درد ہورہا ہے‘۔اس نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے ناز کی سلیقے سے سنوری زلفوں کو مٹھی میں دبوچ لیا۔
’دیدی یہ ظلم ہے۔ناز بناوٹی کرب سے چیخ پڑی۔
اب ابو کے پاس جاکر میری شکایت کرنا کہ میں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ساتھ میں،اس زیادتی کی وجہ بھی بتا دینا۔تب دیکھنا ابو قینچی لے آئیںگے تاکہ ان گھنی زلفوں کو ذبح کرسکیں۔۔ثانیہ نے دھمکی دی۔
’دیدی‘۔ناز نے مسکین شکل بنائی تو ثانیہ نے اس کے بال چھوڑدئیے۔
’جائوزلفی رانی مابدولت نے تمھیں بخش دیا ‘۔ثانیہ نے فراخ دلی کامظاہرہ کیا۔
’زلفی بہت کہتی ہوناں ۔دیکھنا ایک دن اللہ میاں کسی گنجے شخص سے آپ کا نکاح کروادیں گے۔ناز نے بد دعا دی۔یہ سن کرثانیہ پر ایک مرتبہ پھر ہنسی کا دورہ پڑا۔
کمبخت ایسی بددعا تو نہ دے !!!!ثانیہ نے ہاتھ بڑھا کر دوبارہ اسکی زلفوں کو نشانہ بنانا چاہا لیکن ناز وہاں سے بھاگ گئی۔ (باقی آئندہ )
٭٭٭٭٭٭٭