4مئی 2018ء جمعہ کو سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی اخبارعکاظ کا اداریہ نذر قارئین
حالیہ ایام میں منظر عام پر آنیوالی سراغ رساں رپورٹوں نے اس امکان کو ترجیح دی ہے کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی ہونیوالی ہے۔ ایران کی پالیسیوں کے ماحول میں اس پر عسکری حملے کو بعید از امکا ن قرارنہیں دیا جاسکتا۔ ایران کی پالیسیاں انتہائی اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔ ایران نہ سفارتی اقدار کو اہمیت دے رہا ہے اور نہ سیاسی روایات کا پاس کررہا ہے۔ نہ ہی بین الاقوامی عہدوپیمان کی پابندی کررہا ہے۔ عہد شکنی خطے میں دہشتگردانہ کارروائی اور تخریبی سرگرمیاں ایرانی تاریخ کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہیں۔ ایران خطے ہی نہیں دنیا بھر میں اس قسم کی سرگرمیوں پر عمل پیرا ہے۔ اب پوری دنیا کو ایران کے ایٹمی طاقت بننے کے خطرات کا احساس ہونے لگا ہے۔ خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی بھی یہ اعتراف کربیٹھی ہے کہ ایران کے ساتھ کئے گئے ایٹمی معاہدے کی پابندیاں اسے ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے سلسلے میں موثر نہیں ۔ اس حوالے سے تازہ ثبوت اسرائیل کے پیش کردہ وہ حقائق ہیں جن سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ایران نے غیر قانونی ایٹمی سرگرمیوں کا سلسلہ ابھی تک بند نہیں کیا۔ یہ صورتحال ظاہر کررہی ہے کہ ایران کا ایٹمی معاہدہ کالعدم ہوسکتا ہے یااس پر سخت پابندیوں کی صورت میں ترامیم کی جاسکتی ہیں۔
ایران اندرون ملک بیخ کنی کی پالیسیوں ، سماجی انصاف کے فقدان، بدعنوانی کے رواج اوربیرون ملک دہشتگرد تنظیموں کی فنڈنگ اور اسلحہ کی فراہمی جیسی پالیسیاں اختیار کرکے ٹامک ٹوئیاں ماررہا ہے۔حال ہی میں مراقش میں پولیساریومحاذ کے ساتھ عسکری تربیت کے واقعہ نے رہی سہی کمی پوری کردی۔ اس نے ظاہر کردیا کہ ہزاروں میل دورملک مراکش بھی اس کے جارحانہ اقدام سے محفوظ نہیں ۔ اس نے یہ بھی ثابت کردیا کہ ایران اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے نفاذ کیلئے کہیں بھی اور کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ملاؤں کا ایرانی نظام اپنے لئے بلاؤں کا انتظام از خود کررہا ہے۔