مٹی کھانے کی لت میں مبتلا ٹیچر نے شوق کو کاروبار بنالیا
برمنگھم ......عورتوں کے شوق نرالے ہوتے ہیں۔ قدرت نے کھانے پینے کیلئے لاکھوں چیزیں عطا کی ہیں مگر بہت سے لوگوں کے شوق نرالے ہوتے ہیں اور وہ ایسی چیزیں بھی کھاتے رہتے ہیں کہ لوگوں کو حیرت ہوتی ہے اور وہ ایک عجوبہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ خواتین اس حوالے سے زیادہ بدنام ہیں۔ بالخصوص وہ جو امید سے ہوتی ہیں۔ دوران حمل انکی کیفیت ایسی ہوجاتی ہے کہ نت نئی چیزیں کھانا انکا شوق بن جاتا ہے مگر بعض خواتین عام حالات میں بھی ایسے شوق پال لیتی ہیں۔ ایسی ہی خواتین میں یہاں رہنے والی 36سالہ مینڈیسا مین کا بھی شمار ہوتا ہے۔ جنہوں نے مٹی کھاتے رہنے کا عجیب و غریب شوق پال رکھا ہے اور اپنے شوق کی تکمیل کیلئے وہ طرح طرح کی مٹی اور اس کے ـڈھیلے جمع کرتی رہی ہیں۔ انکا شوق ایسا ہی تھا جیسا دوسرے لوگ اپنی پسند کی چیزیں کھانے پینے کیلئے جمع کرلیتے ہیں۔ برسوں تک مٹی کھانے کے شوق میں مینڈیسا کی حالت ایسی ہے کہ وہ رات کے وقت کسی پارٹی وغیرہ میں جاتے وقت بھی اپنی بیگ میں مٹی کے ڈھیلے رکھنا نہیں بھولتی۔ کہا جاتا ہے کہ بچپن میں وہ اپنے اسکول کے کلاس روم میں پڑے ہوئے چاک کے ٹکڑے اٹھا کر کھالیتی تھی اور یہی شوق بڑھتے بڑھتے انکی عادت بن گیا۔ اپنے شوق پر لوگوں کے اعتراضات کے بعدسائنس ٹیچر کے طورپر کام کرنے والی مینڈیسا نے ملازمت ترک کردی ہے لیکن مٹی کا شوق نہیں چھوڑا۔مٹی کے ٹکڑے ہر وقت اس کے بیگ میں موجود رہتے ہیں۔ انہوں نے اب اپنے اسی شوق کو کاروبار بنالیا ہے اور آن لائن پر طرح طرح کی مٹی فروخت کرتی ہیں۔ جنکی مانگ بھی اچھی خاصی ہے۔ مین کا کہناہے کہ انہوں نے اپنا پورا وقت مٹی کے کاروبار پر دینے کی غرض سے ٹیچنگ چھوڑی ہے مگر اب ان کی آمدنی تقریباً اتنی ہی ہے جتنی وہ سائنس ٹیچر کے طور پر کما لیتی تھیں۔ ڈاکٹروں کاکہناہے کہ وہ خاص قسم کے ڈس آرڈر پیکا میں مبتلا ہیں۔ جس سے متاثرہ شخص ایسی فالتو چیزیں کھانے لگتا ہے جنہیں کھانے میں شمار کرنا بھی غلط ہے اور نہ ہی ان چیزوں میں کوئی غذائیت ہوتی ہے۔ میڈیسا 2بچوں کی ماں ہے ۔ وہ سائنس ٹیچر کے طور پر سالانہ 32ہزار پونڈ کماتی تھیں۔ مگر اب مٹی کے آن لائن کاروبار سے جو آمدنی انہیں ہوتی ہے وہ بھی اسی رقم کے لگ بھگ ہے یعنی کبھی تھوڑا زیادہ اور کبھی کچھ کم۔