15مئی 2018منگل کو سعودی عرب سے شائع ہونے والے جریدے ”الاقتصادیہ“ کا اداریہ
قطری قائدین کے تصرفات پر طائرانہ نظرڈالنے سے صرف یہی ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ سیاسی لڑکپن کا مظاہرہ کررہی ہے۔ قطر کی سیاسی قیادت حکمت اور بصیرت کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھ رہی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قطری قائدین دہشتگردوں اور انتہا پسندو ںکے لئے فرش راہ بنے ہوئے ہیں اور ایرانی ملاﺅں کی اسیری قبول کئے ہوئے ہیں۔ بجائے یہ کہ قطر کے قائدین بین الاقوامی سیاسی ماحول اور ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں نیز ایران کے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کا منظر نامہ پڑھ کر کچھ سمجھتے بجائے یہ کہ وہ ذرائع ابلاغ اور سفارتکاروں کی زبانی قطر کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی شہادتوں اور معتبر شخصیتو ں کے بیانات سے سبق لیتے ایسا لگتا ہے کہ ایرانی قائدین ہر آنے والے دن تہران میں ولایت الفقیہ حکومت کی آغوش میں گرتے ہی چلے جارہے ہیں۔ قطر ، ایران مشترکہ کمیشن نے 13برس قبل جو فیصلے کئے تھے اور تعطل کا شکار تھے ان پر عملدرآمد بحال کیا جارہا ہے۔ ایرانی وزیر صنعت نے دوحہ ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد کل پیر کو یہ بیان دیکر سب کو چونکا دیا کہ ایران اور قطر درست جہت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے تعلقات کے سفر کو آگے بڑھانے کیلئے مزید جدوجہد کرنا ہوگی۔
قطری قائدین کا ایران کیساتھ گہرے تعلقات کی جہت میں سفر واضح کررہا ہے کہ قطری قائدین کو نہ اپنے عوام سے کوئی دلچسپی ہے نہ خطے سے اور نہ ہی عالمی امن و سلامتی سے۔ قطری قائدین کا یہ مجنونہ عمل اور خود کو پوری دنیا میں دہشتگردی کے سرپرست اول ایران کے ساتھ جوڑنا بتا رہا ہے کہ قطری قائدین نوشتہ دیوار پڑھنے کیلئے تیار نہیں۔ پوری دنیا آج ایران کے خلاف صف بستہ ہے۔ وہ تباہی و بربادی اور خونریزی پھیلانے والے ایرانی نظام کی بیخ کنی کیلئے مستعد ہے۔ ایران کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ امریکہ اور مغربی ممالک بلکہ عالمی سیاسی نظام کے بیشتر سیاستدان انسانی حقوق کے ادارے اور تنظیمیں ، صحافی، دانشور اور سرگرم مصلحین سب کے سب خبردار کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا قطر کی بیمار ذہنیت ایک ایسی دیوار کا سہارا لینے میں حق بجانب ہوگی جس کیخلاف عالمی عدالت کا ہتھوڑا بہت جلد اٹھنے والا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭