تطہیرِ قلب اورتہذیبِ نفس ، روزے کا اصل مقصد
اوصافِ حمیدہ اور محاسنِ جلیلہ کے علاوہ روزہ انسان میں تقویٰ و پرہیزگاری کی صفت پیدا کرتا ہے،یہی صیام کی اصل حقیقت ہے
* * *محمد منیر قمر۔ الخبر* * *
حدیث ِ رسول میں رمضان المبارک اور روزے کے بیشمار فضائل و برکات اور فوائد وثمرات بیان کئے گئے ہیںجن میں سے چند یہ ہیں:
o اخلاص کا منفرد مظہر:
تمام عبادات میں سے روزہ ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔اسکے سوا اسلام کے تمام ارکان کا کسی نہ کسی حدتک ظاہر سے بھی ایک تعلق ہے،جیسے نماز کو ہی لے لیجئے کہ یہ پوشیدہ نہیں رہ سکتی بلکہ جب سورۃ البقرہ ،آیت43 میں واردحکمِ الٰہی ’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘ کے تحت کوئی شخص با جماعت نماز ادا کر یگا تو پوری جماعت اسے مسجد میں آتے جاتے اور نماز ادا کرتے دیکھے گی۔حج کی ادائیگی پر سینکڑوں ہزاروںنہیں بلکہ لاکھوں حجاج کا جم غفیر اسے مناسک ِ حج و عمرہ ادا کرتے دیکھتا ہے اور زکوٰۃ ہے تو وہ بھی کم از کم دینے اور لینے والے 2آدمیوں کے مابین ہوگی مگر روزہ… روزہ وہ منفرد عبادت ہے کہ ایک وقت ا سکاتعلق ظاہر سے بالکل ہی ٹوٹ جاتا ہے اور صرف عابد و معبود کا باہمی معاملہ ہی رہ جاتا ہے،مثلاً والدین،بہن، بھائیوں اور بیوی بچوں یا دوست و احباب کیساتھ ملکر سحری کھائی، مگر جب وہ باتھ روم،کچن یا کسی بھی مقام پر تنہا ہے تو بنی نوعِ انسان تو کیا تمام مخلوقات میں سے کوئی پرندہ تک بھی اُسے نہیں دیکھ رہا ہوتا۔
ایسے میں جب باہر شدت کی دھوپ اور گرمی ہو تو انسان کا نفس ِ امارہ اسے یہ طفل تسلیاں دیتا ہے کہ اس تنہائی میں اگر تم ٹھنڈے پانی سے شاد کام ہو لو،توکون دیکھ رہا ہے؟ اور کس کاڈر ہے؟ ۔ عین اُسی وقت روزہ دار کاذات ِ الٰہی پر غیر متزلزل ایمان آڑے آتا ہے۔ اس کا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے اور اُسے جھنجھوڑ کر بتاتا ہے کہ اس تنہائی میں پانی پینے میں بھی اُس ذات کا ڈرہے کہ جو شہ رگ سے بھی قریب ترہے اور پانی کے منہ سے پیٹ تک جانے کے راستے میں ہی جسکا گھر ہے کیونکہ سورہ ق ، آیت16 میں ارشادِ الٰہی ہے:
’’ہم تو اپنے بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘
o غیر متزلزل ایمان:
اس یکسوئی و تنہائی کے لمحات میں اگر اسے فکر ِ آخرت اور خوف ِ الٰہی نہ ہو،اللہ تعالیٰ کے لطیف و خبیر اور علیم ورقیب ہونے پراس کا مضبوط و محکم ایمان نہ ہوتو وہ کبھی بھی روزے کی تکمیل نہ کرپائے۔یہ دولت ِ ایمان ہی کا کرشمہ ہے کہ آتش بار گرمی اور تشنہ کامی میں بھی وہ روزہ دار کو ٹھنڈے پانی سے شاد کام نہیں ہونے دیتا اور ایک گھونٹ بھی گلے سے نیچے نہیں اُتارنے دیتا۔یہ امتیازی اورانفرادی حیثیت تمام عبادات میں سے صرف روزے کو ہی حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری ومسلم ا ور نسائی کی حضرت ابوہریرہؓسے مروی حدیث ِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’بنی آدم کا ہر عمل اُسی کیلئے ہے، سوائے روزے کے، وہ محض میری خوشنودی کیلئے ہی ہوتاہے اورا سکااجر وثواب بھی خود میں ہی دوںگا۔‘‘
بخاری شریف میں اس حد یث ِ قدسی کی ایک اور روایت کے یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں:
’’میرا بندہ کھانا پینا اور حلال شہوت کو پورا کرنا بھی میری رضا کی خاطرچھوڑدیتا ہے۔روزے میری رضا کیلئے خاص ہیں اور ان کی جزابھی خود میں ہی دوںگا اور ایک نیکی کا بدلہ 10 گنا ہے۔‘‘
صحیح مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے:
’’بنی آدم کے ہر نیک عمل کا بدلہ بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے،ہر نیکی کا بدلہ 10 گنا سے لیکر 7 سو گنا تک دیا جائیگالیکن اللہ کا ارشاد ہے: سوائے روزے کے،وہ محض میری رضا کیلئے سرانجام پاتا ہے اور اسکااجر وثواب بھی خود میں ہی دونگاکیونکہ وہ شہوت اور کھانا پینا میری وجہ سے چھوڑتا ہے۔‘‘
اندازہ فرمائیں کہ روزے کی اس امتیازی و انفرادی حیثیت و مقام میںدوسرا کوئی عمل اس کاکیا مقابلہ کر پائے گا؟۔
o اخلاقی و روحانی تربیت :
انبیاء ورسل ؑ کی بعثت کا بنیادی مقصداللہ تعالیٰ کی توحید ویکتائی اور بے ہمتائی اجاگر کرنا،اخلاق ِ انسانی کو سنوارنا اور اخلاقی اقدار کو فروغ دینا ہے اور نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی نے خود اپنی زبان ِ مبارک سے بھی اپنی بعثت کا یہی منصب ِ جلیل اور مقصدِعظیم بیان فرمایا ہے چنانچہ الادب المفرد امام بخاری،مستدرک حاکم،شعب الایمان بیہقی، مسنداحمد، مؤطا مالک اور طبقات ابن ِ سعد میں حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ارشادِ نبوی ہے:
’’میں مکارم ِ اخلاق(صالح اخلاق) کی تکمیل کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘
یوں تو سبھی ارکان ِ اسلام ہی انسان میں اخلاقی وروحانی اقدار کے فروغ وارتقا کا کام کرتے ہیں مگر روزہ ایسی عبادت ہے کہ یہ باقی ارکان کی نسبت اخلاقیات کے اِتمام وتکمیل کیلئے سب سے اہم تربیت گاہ اور ایک طویل ٹریننگ ہے بلکہ اگر ماہ رمضان کے روزوں کو ’’ریفریشرکورس‘‘ کا نام دیا جائے تو بیجانہ ہوگا۔
دیکھ لیجئے کہ اقرار ِتوحید ورسالت اگرچہ مسلمان ہونے کیلئے شرط ِ اول ہے مگر پوری زندگی میں صرف ایک ہی بار فرض ہے۔نماز ہے تو وہ بھی چند منٹوں میں ادا ہو جاتی ہے اور روزانہ کی پنجگانہ نماز پر صَرف ہونے والا کل وقت ایک گھنٹہ بھی نہیں بنتا۔زکوٰۃ سال بھر میں صرف ایک بار ادا کی جاتی ہے اور حج اگرچہ عوام الناس سے کافی وقت لے لیتا ہے لیکن جو لوگ باحیثیت اور اصحاب ِ دولت و ثروت ہیں، وہ اپنے تیز تر وسائل کی بنا پر مہینوں کی اس مسافت اور عبادت و ریاضت کو ہفتہ عشرہ میں ہی سمیٹ کر فریضۂ حج وعمرہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہوسکتے ہیں اور اگر بحری یا بری راستوں سے وادیٔ حجاز اور حرمین شریفین تک پہنچنے اور حج ِ بیت اللہ میں صرف ہونے والے کل وقت کا اندازہ لگائیں تو بھی کھینچ تان کر یہ2،3 ماہ ہی بنتے ہیں جبکہ یہ حج بھی ایک مسلمان کی زندگی میں اس پر صرف ایک ہی مرتبہ فرض ہے لیکن روزہ… روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو کہ سنِ تمیز ورُشد سے لیکر تادم ِواپسیں ہر مسلمان پر ہر سال رمضان المبارک کا پورا مہینہ فرض ہے،جیساکہ سورۃ البقرہ، آیت185 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’تم میں سے جو شخص ماہِ رمضان کو(مقیم وتندرست ہونے کی حالت میں)پائے وہ اس ماہ کے روزے رکھے۔ ‘‘
اس ارشاد کی تعمیل ہر سال ایک ماہ یعنی کم ازکم 360 گھنٹے کیلئے مسلمان سے اسلامی قواعد وضوابط کی پابندی سے ہی ممکن ہے کیونکہ اگر ایک روزہ کا وقت صرف12 گھنٹے شمار کیا جائے تو30دنوں کے مہینہ کی صورت میں حالت ِ روزہ کے اتنے گھنٹے ہی بنتے ہیں۔ یہ طویل ریاضت انسان میں تطہیر ِ قلب،تصفیۂ باطن،تہذیب ِ نفس اور ایسے اوصاف ِ حمیدہ و محاسن ِ جلیلہ پیداکردیتی ہے جو حقیقتاً بلند اخلاقی کا طرۂ امتیاز ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روزہ انسان میں تقویٰ و پرہیزگاری کی صفت پیدا کرتا ہے جو سب سے قیمتی چیز ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے بھی روزے کا فلسفہ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ ہی بتایا ہے’’تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
oاندازِ تربیت:
ماہِ رمضان اخلاقی وروحانی تربیت وٹریننگ کا مہینہ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ہمیں نبی اکرم کے بتائے ہوئے روزے کے آداب اور قواعد وضوابط کو پیش نظر رکھنا ہوگا،مثلاً صحیح بخاری ومسلم،ابوداؤد ونسائی اور موطا امام مالک میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ارشادِ نبوی ہے:
’’تم میں سے جب کسی نے روزہ رکھا ہوا ہو، تو اسے چاہئے کہ فُحش گوئی وبدکلامی اور سوقیانہ زبان درازی نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اُس سے گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا کرنا بھی چاہے،تو وہ اسے کہہ دے کہ بھئی !میں تو روزے سے ہوں۔‘‘
صحیحین وسنن کی اس حدیث میں نبی اکرم نے روزہ دار کو زبان پر کنٹرول کرنے اور اسکے تحفظ کا حکم فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ فحش گوئی وبد کلامی،گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے سے کلی طور پر پرہیز کرنا روزے کے آداب میں سے ہے۔
ایسے ہی صحیح بخاری، سنن ابی داؤد وترمذی اورمسند احمد میں حضرت ابوہریرہؓ سے ہی مروی ارشاد ِ نبوی ہے:
’’جو روزہ دار روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے اور اس پر عمل کرنے سے باز نہیں رہتا،اللہ تعالیٰ کو اسکے کھانا پینا چھوڑنے (اور بھوکا پیاسامرنے) کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
اس ارشاد ِ گرامی میں یہ بتادیا کہ روزے کی حالت میں جھوٹ نہ بولنا بھی قبولیتِ روزہ کی ایک شرط ہے اور اگر کوئی شخص روزہ بھی رکھے اور جھوٹ بھی بولتا جائے تواسے روزے کا ثواب نہیں ہوگا،وہ خواہ مخواہ ہی بھوک و پیاس برداشت کررہاہے۔
معلوم ہوا کہ روزہ صرف اسی چیز کا نام نہیں کہ طلوع ِ صبح صادق سے لیکر غروب ِآفتاب تک کھانے پینے سے منہ بند کرلیا جائے بلکہ روزے کے کچھ اور بھی تقاضے ہیں جو اسکی قبولیت کیلئے ضروری بھی ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ صرف منہ پیٹ اور شرمگاہ کا ہی روزہ نہیں بلکہ تمام اعضائے جسم کا روزہ ہونا چاہئے۔روزہ دار زبان سے فحش گوئی،دروغ گوئی وکذب بیانی یعنی جھوٹ بولنے،گالی گلوچ کرنے، غیبت وچغلی کھانے سے قطعی پرہیز کرے۔دل ودماغ کو آوارگی و بدخیالی سے روکے اور تصورات کی دنیا میں خوابوں کے محل تیار کرنے اورجسمانی و ذہنی عیاشی سے باز رہے۔آنکھوں کو پریشان نظری سے بچائے۔
ٹی وی ،وی سی آراور انٹرنیٹ وغیرہ پر فلم بینی کرنے اور راہ چلتی عورتوں کو تاڑنے اور تانک جھانک کرنے سے بچے اور اپنے کانوں کو ناجائز باتوں،نازیبا ونارواآوازوں،گیتوں،گانوں اور موسیقی یا سازوں سے محفوظ رکھے اور جس طرح چغلی کھانے سے زبان کو روکے، اسی طرح ہی چغلی سننے سے کانوں کا تحفظ کرے کیونکہ یہ تمام برائیاں جہاں معاشرتی ناسور کی حیثیت رکھتی ہیں وہیں یہ سب امور آداب ِ روزہ کے بھی خلاف ہیں۔
جو شخص مہینہ بھراپنے آپ کو ان برائیوں سے بچاتارہے گا اس کی ایک طرح کی ٹریننگ یا تربیت ہوجائیگی جو ان برائیوں سے بچنے کیلئے سال بھر اسکے کام آئیگی اور اتنے میں پھر یہ ماہِ مبارک آجائے گا۔