Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پارلیمنٹ نے صحیح کردار ادا کیا؟

***صلاح الدین حیدر***
اب جبکہ قومی اسمبلی کو تحلیل ہونے میں صرف 10 دن رہ گئے ہیں اور 60 دن کے اندر پارلیمان کے ایوان زریں کے انتخابات ہونیوالے ہیں ، تو اکثر لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کیا پارلیمان نے اپنا کردار صحیح طور پر ادا کیا اور کمی رہ گئی تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے۔ 
اسکے ساتھ ملک میں بحث بھی چھڑی ہوئی ہے کہ آئندہ عوام الناس کو کیسے لوگ ایوان میں بھیجنے چاہئیں ۔ موجودہ قومی اسمبلی 342ممبران پر مشتمل ہے۔ 272(one-man one vote) کی بنیاد پر 11مئی3 201ء کو منتخب ہوئی۔ بعدمیںچونکہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر او ر 10ممبران اقلیتی نشستوں پر منتخب ہوئے، ممبرا ن کی تعداد پوری ہونے پر یکم جون  2013کو ایوان زیریں نے حلف ِ وفاداری اٹھایا جس کے تحت ہر ممبر اس بات کا پابند تھا کہ وہ ملک وقوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے گا ،لیکن کاش ایسا ہوتا ۔
اسمبلی کے ممبران نے پورے5سال بے اعتناعی کا ثبوت دیا ۔ان کے نزدیک حلقے کے عوام تو شاید تھوڑی بہت اہمیت رکھتے تھے لیکن قومی مسائل شازو نادر ہی زیر بحث آئے جو کہ ہمارے  پارلیمانی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے ۔جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد 2008میں جمہوریت دوبار ہ بھال ہوئی تو پیپلزپارٹی نے بے نظیر کی شہاد ت کا بھرپو ر فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ ہمدردی کی بنیا دپر وفاقی ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں تخت نشین ہوئی، لیکن سوائے چند ایک نمایاں کام کے کسی اور چیز کو اہمیت نہیں دی ۔ ترقیاتی منصوبے دھر ے کے دھرے رہ گئے اور لوگ آصف زرداری جو صدر مملکت بنے کو عجیب وغریب القابات سے نوازنا شروع کردیا۔پہلے ہی وہMr ten percent مشہور تھے بعد میں تو نجانے انہیں کیا کیا کہا گیا، لیکن انہیں اس کی ذرہ  برابر پروا نہیں تھی۔ 
ایک ٹی وی انٹرویو میں معروف اینکر کے سوال پرکہ کیا پی آئی اے، اسٹیل مل، اور دوسرے بڑ ے ادارے تنزلی کا شکار ہیں، وہ بار بار صرف ایک ہی جملہ دہراتے رہے کہ ’’ آپ کی نظر میں ‘‘ ۔مطلب صاف تھا کہ جو کچھ الزام دیا جاتا رہا ہے،وہ حقیقت سے بہت دور تھا ۔کوئی بھی سربراہِ مملکت اگر اس طرح بیزاری اور بے توجہی کا اظہار کرے تو نتائج وہی ہوتے ہیں جسے ملک آج تک بھگت رہا ہے۔پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل قرضوں کے بوجھ تلے آخری سانسیں لے رہی ہیں، اسٹیل مل جو کہ کسی بھی ملکی معیشت کیلئے اہم ترین ادارہ ہوتا ہے ۔ پچھلے2 سالوں سے بند پڑی ہوئی ہے،ظاہرہ ہے کہ 5سال بعد( 2013میں) ہونے والے انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو یکسر رد کردیا، نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) نے وفاق اور پنجاب میںحکومت میں بنائی بلوچستان میں اسے قوم پرستوں سے اتحاد کرنا پڑا اور محمود خان اچکزئی،حاصل بزنجو جیسے خود ساختہ لیڈران سے مل کرمخلوط حکومت بنانا پڑی لیکن ڈاکٹر عبدالمالک جو کہ ان کے نمائندے تھے ، ڈھائی سال بعد پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تحت (ن) لیگ کے قبائلی سردار ثناء اللہ زہری کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ لیکن وہاں بھی ایک نئی عوامی پارٹی نے جنم لیا اور اب شاید وہی جنوب مغربی صوبے میں دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرے۔ 
نواز شریف کے زمانے میں قومی اسمبلی کو سرے سے ہی نظر انداز کردیا گیا ، خود نواز شریف وزیر اعظم ہونے کے باوجود بمشکل 6  یا  7  مرتبہ اسمبلی ہال میں نظر آئے۔ ان کی دیکھا دیکھی تحریک انصاف  کے لیڈر عمران خان نے بھی اسمبلی کو اہمیت دینے سے انکار کردیا۔ گویا کہ ایک قومی سلامتی اور پالیسی ساز ادارہ عضومعطل ہوکر رہ گیا۔ قوم کے لیے یہ بات کسی سانحے سے کم نہیں تھی، چوں چوں کا مربہ بن کررہ گیا۔قومی اسمبلی نہ ہوئی مذاق ہوگئی۔ 
کوئی بھی اہم معاملہ مثلاً کشمیر میں ڈیڑھ سال سے چلتی ہوئی حقوق انسانی کی تحریک جس پر آج تک ہند قابو نہیں پاسکا۔کنٹرول لائن یا سیالکوٹ کی ورکنگ باونڈری پر مسلسل ہند کی طر ف سے گولہ باری ، نہتے اور معصوم لوگوں کی شہادتیں بے معانی ہو کر رہ گئیں۔ہمدری کے چند الفاظ اور بس۔ وزراء تک اسمبلی میں آنے سے گریز کرتے تھے، امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکی اور لعنت ملامت تک ایوان میں زیر بحث نہیں لائی گئی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اسپیکر ایاز صادق کی توجہ اس طرف مبذول کراتے ہوئے ایک دفعہ کہا کہ جنا ب یہ پارلیمان ہے کہ کھلواڑ، کہاںہیںآپ کے وزراء ، کون ہماری بات سنے گا۔ آخر حکومت کا کام کیا ہے؟ کیوں بنائی گئی ہے، یہ اسمبلی ، لیکن اسپیکر نے خاموشی ہی میں نجات سمجھی۔ ہاں ایوان بالامیںساڑھے 4 سال تک رہنے والے چیئرمین رضا ربانی نے سینیٹ کو بخوبی چلا کر دکھادیا۔ رضا جن کا پارلیمانی دور 3 دہائیوں پر مشتمل ہے، نے زبردست کردار ادا کیا ۔انہوں نے خواجہ آصف جیسے زیر ک سیاست دان اور پانی بجلی کے وزیر اور بعد میں وزیر خارجہ کو کئی بار ڈانٹ پلائی کہ وہ ہال میں موجود کیوں نہیں ہوتے ۔ ایک دو با ر تو انہوں نے غصے میں خواجہ آصف کو ہال سے باہر تک نکال دیا۔ ایسی مثالیں کم ملتی ہیں،عوام اب سوال پوچھتے ہیں کہ جولائی میں ہونے والے انتخابات میں آخر کونسی تدابیر اختیار کی جائیں جس سے عوام کے صحیح نمائندے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں آئیں تاکہ عوامی مسائل کے حل ہونے پر توجہ دی جاسکے ۔لیکن ایسا کونسا پارلیمان ہے جس کے تحت اس اصول کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔ہاں اگر عمران خان اور کچھ نوجوان طبقات  لوگوں کو انتخابی مہم کے دوررس نتائج دکھا سکیں تو شاید کوئی حل نکل آئے ، امید پر دنیا قائم ہے۔ 
 

شیئر: