میں سمجھ رہا تھا کہ سعودی شہروں میں افطار دستر خوان کے فوائد ماہ مبارک میں سماجی کفالت کی واحد شکل ہیں۔افطار پیکٹ مساجد کے پہلو میں قائم کئے جانے والے رمضان خیمہ پہنچنے والے ہر شخص کو پیش کئے جاتے ہیں۔ سعودی وزارت اسلامی امور رمضان خیموں کے انعقادکے لئے اجازت نامے جاری کرتی ہے۔ مخیر حضرات رمضان دستر خوان کا دائرہ پھیلانے میں انتہائی فنکاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لذیذ اور بہترین غذائیں فراہم کرنے کا غیر معمولی اہتمام کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ تاجر حضرات بلکہ محلے کے باشندے بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاہم مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہمارے یہاں فلاحی عمل اور سماجی کفالت کی ایک اورشکل بھی قابل دید ہے۔ میری مراد ٹریفک سگنلز پر چھوٹے چھوٹے بچوں کا مشروبات کے پیکٹ ، چھاچھ اور افطار پیکٹ تقسیم کرنا ایسا مثالی عمل ہے جس کی نظیر شاید ہی کسی اور ملک میں نظر آتی ہو۔
ٹریفک سگنل پر افطار پیکٹ کی تقسیم کا مرکزایک مسلمان بھائی کی جانب سے دوسرے مسلمان بھائی کی ضرورت کے احساس و ادراک کا عملی نمونہ ہے۔ یہ منظر ہمیں سال میں ماہ مبارک کے دوران ہی دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ رمضان کے روح پرور مناظر آپ کو قاہرہ، دمشق اور بغداد میں بھی گنے چنے دنوں کے دوران دیکھنے کو ملیں گے۔ فلاحی انجمنیں بھی صدقات و خیرات کی تقسیم اور اپنی ناداری کو چھپانے والے افراد کی تلاش کے بعد انہیں ان کی ضرورتیں مہیا کرنے کا قابل قدر شکل میںکام انجام دے رہی ہیں۔ یہ سب مقام شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے معاشرے میں پیدا کیا جو رحمدلی کو اپنی پہچان بنائے ہوئے ہے جہاں مالدار ، نادار کے ساتھ اور بڑا چھوٹے کے ساتھ رحمدلی سے پیش آتا ہے۔ یہ دینِ اسلام کی وہ خوبی ہے جو نمایاں شکل میں برکتوں کے مہینے رمضان میں ہی کھل کر سامنے آتی ہے۔
میں نے حرمین شریفین میں بھی سماجی کفالت اور تعاون کے انتہائی خوش کن مناظر دیکھے ہیں۔ حرم شریف اور اسکے دالانوں میں تاحد نظر بچھے ہوئے دستر خوان، زائرین کا ایک دوسرے کو پانی اور کھجوریں پیش کرنے کا انداز روحانیت سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ہر انسان اپنی بساط کے مطابق دوسرے پر کچھ نہ کچھ خرچ کرنے کیلئے کوشاں نظرآتا ہے۔ یہ منظر دین اسلام کی دین ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ خرچ کرکے اللہ تعالیٰ سے کافی کچھ حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
سعودی ہوائی اڈوں اور شاہراہوں پر بھی سماجی کفالت کے روح پرور مناظر دیکھے جارہے ہیں۔ کوئی شخص اپنی کمر پر پانی اور کھجور کے ڈبے لادے ہوئے روزہ داروں کی تلاش میں سرگرداں نظر آرہا ہے تو کوئی غروب آفتاب سے قبل اپنی افطار کی فکر کئے بغیر دوسروں کو افطار کرانے میں مصروف نظر آرہا ہے۔ یہ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا ہے۔
جدہ کی شاہ سعود جامع مسجد میں روزانہ ایک ہزار افراد کو افطار کرایا جارہا ہے۔ معروف سرمایہ کار محمد العمودی اسکا انتظام کرتے ہیں اور انتہائی پابندی سے سب لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر افطار کرتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب وہ خود یہ کام انجام نہ دیتے ہوں۔
یہ سارے مناظر اس بات کا روشن ثبوت ہیں کہ امت مسلمہ زندہ ہے۔ فرزندان اسلام اپنی تمام خامیوں ، کمزوریوں کے باوجود ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس اپنے قلب اور وجدان میں باقی رکھے ہوئے ہے۔ بڑے، چھوٹوں کے ساتھ ، مالدار ، ناداروںکے ساتھ محبت، الفت اور تعاون کے جذبے سے دست تعاون بڑھا رہے ہیں۔ طیاروںکے ذریعے شام، یمن اور روہنگیا کے بھائیو ںکےلئے غذائی اشیاءبھیجی جارہی ہیں۔ حرمین شریفین کی سرزمین کے باشندے یہ سارے کام اس یقین ، اس احساس اور اس جذبے سے انجام دے رہے ہیں کہ صدقہ ، خیرات سے اللہ تعالیٰ کے غضب کی آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے اور جو مسلمان بھی کار خیر کے طور پر کوئی رقم خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس کا نعم البدل عطا کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کارخیر کرنے والوں کو بہترین اجر سے نوازے۔ اللہ ہم سب کے روزے اور قیام اللیل کی کاوشوں کو قبول فرمائے،آمین۔