Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ثانیہ سمجھ نہ سکی ،یہ تقدیر کا ایک مذاق ہے یا خاندانوں کے درمیان سمجھوتہ

اس نے جْوڑے کا پن نکال کے سر کو ہلکی سی جنبش دی ، بال کمر پر بکھرتے ہوئے کسی خوبصورت گھٹا کی طرح پھیل گئے،رضا  کی پھیلی ہوئی آنکھوں میں وحشت   و حیرت کی آمیزش تھی
ناہید طاہر۔ریاض
(قسط 10)
اس نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کمر سیدھی کی۔۔۔لمحوں کا سکوت ماحول اور خواب گاہ پر عجب طرح سے اثر انداز ہورہاتھا۔۔۔گھڑی ٹک ٹک کرتی سناٹوں کا سینہ چاک کررہی تھی۔۔جب رات بہت گہری ہوگئی تو اس نے تھکان سے وقت دیکھا ساڑھے تین بج رہے تھے جانے کیوں  وجود میں خوفناک  سنسناہٹ سرایت کرنے لگی۔۔۔اس نے گھونگھٹ کو کب کا نوچ کر الگ کردیا تھا۔۔۔۔۔الماری سے ایک ہلکی سی شلوار قمیص نکالی اوربھاری کپڑوں سے نجات حاصل کرلی۔جسم کو تانا، کسلمندی دور کرنے کی کوشش کی اور ایک بھرپور انگڑائی لی۔۔
جْوڑے کا پن نکال کے سر کو ہلکی سی جنبش دی ، بال کمر پر بکھرتے ہوئے کسی خوبصورت گھٹا کی طرح پھیل گئے۔  وہ بستر پر دراز ہوگئی۔کیونکہ بہت تھک چکی تھی اس لئے نیند نے فوراً اپنے ہالے میں سمیٹ لیا۔تب ہی  دروازے پر ہلکی سی دستک کے ساتھ قدموں کی آہٹ سنائی دی۔
ثانیہ نے گھبراکر بتی جلاناچاہا۔
رہنے دیجئے۔۔۔۔۔۔!کافی تھک گیا ہوں ،سونا چاہتا ہوں۔۔۔۔!!!
ثانیہ کی سماعت میں جیسے سیسہ گھلنے لگا۔ اس نے جونہی بتی جلائی وہ  چارسوچالیس وولٹ کے حصار  میں قید تھی  !!!!
آپ ؟؟؟
تم۔۔۔۔۔ ؟؟؟  رضا  کی پھیلی ہوئی آنکھوں میں وحشت   و حیرت کی آمیزش تھی۔
ثانیہ کو بھی جیسے سانپ سونگھ گیا۔وہ اْس مغرور انسان کو دیکھنے لگی جو جانے انجانے میں اس کا ہمسفر بن بیٹھا  تھا۔شدت کرب سے اس کی آنکھیں پھٹ پڑنے کو تھیں۔
یا اللہ خیر!ثانیہ  دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
وہ جس سے  نفرت کرتی  تھی۔وہی  شریک حیات  کی شکل  میں سامنے کھڑاتھا۔قدرت کی اس ستم ظریفی  پر اسے رونا آیا۔
سب کچھ ختم ہوچکا۔۔۔۔!!!اب کس بات کی خیر چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔۔؟رضا نے ثانیہ کے حسن اور جسم سے اٹھتی ہوئی  خوشبو سے فرار حاصل کرتے ہوئے لہجے میں کڑواہٹ بھری اورجلدی سے تکیہ اٹھالیا۔
میں ابھی دادو سے بات کرتا ہوں۔نہیں وہ بات کرنے کی حالت میں نہیں۔۔۔۔ہاں  اس قاضی کے بچے کو چھوڑوں گا نہیں۔گلا گھونٹ  دوں گا۔۔۔وہ خود کلامی کرتا ہوا مٹھیاں بھینچتا ہوا اپنے بال نوچنے لگا۔
آپ اس نکاح نامہ پر دستخط کرنے والے شخص  کا گلا گھونٹ دیں۔ ثانیہ نے اس معاملے کا تصفیہ کرنا چاہا۔
کون ہے وہ شخص۔۔۔۔۔؟وہ غرایا دوسرے ہی پل چونکا۔
میں۔۔۔۔۔۔۔!!!!اس پر رضا نے تیز نگاہوں سے ثانیہ کو دیکھا۔
تم  دستخط کرنے سے انکار کردیتیں۔۔۔۔رضا نے جیسے مسئلے کا حل سجھایا
افسوس۔۔۔۔۔ جو کام آپ مرد ہوکے نہ کرپائے میں لڑکی ہوکر کیسے کرتی۔۔۔!!!۔ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ  بزرگوں نے  پیدائش کے ساتھ ہی ہماری   خوشیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا منصوبہ تیار کرلیا تھا۔
اب آپ کے داداجان کی طبیعت کیسی ہے۔۔۔۔؟
امید کہ ہماری قربانی رنگ لائی ہوگی؟ ثانیہ کے لہجے کی تلخی پر رضا نے بے اختیار اسے دیکھا۔دوسرے پل وہ سسک پڑی۔
" تقدیر کا یہ کیسا مذاق ہے۔؟"
"’ مذاق ، تقدیر نے نہیں بلکہ تم اور تمہاری چالاک دادی صاحبہ نے کیا ہے۔ اس کھیل کی بساط پہ میرے معصوم دادوْکو بڑی  چالاکی سے مہرا  بنا یا گیا،اور  مجھے قربانی کا بکرا۔۔۔!!! یہ بہت پلان سے کھیلا گیا کھیل ہے۔۔۔۔۔۔ اپنی مفلسی سے فرار کا شارٹ کٹ۔!!!
اس شارٹ کٹ کے لئے میں ہی نظر آیا۔۔؟ رضا جیسے آگ اگلنے لگا۔
’ یہ سراسر الزام ہے۔۔۔ ثانیہ مسہری سے اْتر کر اپنے گہنوں کو بے دردی سے نوچتی ہوئی سراپا احتجاج بن گئی۔۔
خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو۔۔۔۔۔مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔!!!!وہ انگارے برسا رہا تھا۔
ہاں ساری خوش فہمیاں تو میں ہی پال رکھی ہوں۔۔۔۔!ثانیہ نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
ہاں دلچسپی ہماری دولت میں  جو ہے۔رضا طنزیہ لہجے میں گویا ہوا۔
بدگمانیوں کا کوئی علاج نہیں ۔۔۔۔۔!!!ثانیہ نے بے بس سے جواب دیا۔ 
  یاد رکھنا تم اس شادی کو اپنے لئے نارِ سقر پاؤگی !!!!وہ بھّنا گیا۔۔۔
پھر تو اس جہنم کی آگ سے آپ بھی محفوظ نہیں رہ سکتے !!اس کے لہجے کی ترشی پر رضا بھی چکر کھاگیا۔
یاد رکھناتم ساری زندگی خوشی کو ترسوگی۔۔۔ ‘ میں تمہیں آنسواور درد کی سوغات بخشتا ہوں۔۔۔اس نے آخری تیر آزمایا۔
اتنا غرور……!!!!!وہ بھی کسی سے کم نہیں تھی۔یہاں سے دفع ہوجائیں... !!!وہ برہم ہوگئی۔
یہ میرا گھر ہے ،میرا کمرہ ہے!!!!اس نے حق جتایا۔
ٹھیک ہے میں ہی چلی جاتی ہوں۔ثانیہ کے پاس دوسراراستہ بچا ہی نہ تھا۔
'داداجی' وہ زور سے آواز لگانا چاہتی تھی،  رضا نے سٹپٹا کراس کے منہ پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھا اور جھنجھلا کر تکیہ اٹھایا اور صوفے پر دراز ہوگیا۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: