Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آخر قصور کس کاتھا؟

ارم آصف صدیقی۔ ریاض
زویا، زویا پلیز ! بیٹا چُپ ہوجاﺅ۔ یوں کب تک رو رو کر ہلکان ہوتی رہو گی۔ زویا کی پھوپھی سارہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ نہیں پھوپھو نہیں، یہ رونا تو اب زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا۔ میں اپنی ماں کی قاتل ہوں۔ کاش! میں نے یہ سمجھ لیا ہوتا کہ والدین کی محبت کے سامنے کسی محبت کی کوئی حقیقت نہیں۔ اے کاش! میں اس فریب میں نہ آئی ہوتی۔ دکھ اور پچھتاوا زویا کے لہجے سے عیاں تھا۔
زویا، سعد، حسان اور حمنہ اپنے والدین عظمت صاحب اور آسیہ بیگم کے آنگن میں کھلے ہوئے چار خوبصورت پھول تھے۔ زویا جب صرف 3سال کی اور سعد 2 سال کا تھا تو ان کے والدین معاشی تنگی دور کرنے کی خاطر ہجرت کرکے ایک خلیجی ملک پہنچ گئے۔ یہاں عظمت کو ایک بڑی اچھی ملازمت مل گئی اور پھر دو، دو سال کے وقفے سے حسان اور حمنہ کی آمد ، زویا اور سعد کا اسکول میں داخلہ اور دوسری بڑھتی ضروریات نے انہیں وطن واپس پلٹنے کا موقع ہی نہ دیا۔
گزرے ہوئے 13 برس میں وہ صرف تین مرتبہ ہی بیوی بچوں کے ساتھ پاکستان کا چکر لگاسکے۔ ایک مرتبہ اپنی والدہ کی وفات پر اور دوسری مرتبہ قریبی رشتہ داروں کی شادیوں پر۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے بچے اپنے باقی سب کزنز وغیرہ سے ملنے کا نہ صرف اشتیاق رکھتے تھے بلکہ اپنی ماں کی اچھی تربیت کی بدولت ان سب سے محبت اور واقفیت بھی رکھتے تھے۔ زویا کی خاص طور پر اپنی پھوپھو زاد بہنوں اذکیٰ اور علینا سے بڑی دوستی تھی۔ اذکیٰ تو اس سے چار سال بڑی تھی اور علینا اس کی ہم عمر ۔ باقی تایا زاد ، چچازاد اور ماموں زاد بہن بھائیوں سے بھی فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ نہ کچھ رابطہ رہتا ۔
اس سال زویا کے میٹرک کے امتحانات کے بعد چھٹیوں میں عظمت صاحب اور آسیہ بیگم نے وطن جانے کا پروگرام بنایا تو سب بچے بہت خوش ہوئے۔ پاکستان میں بھی ددھیال اور ننھیال میں خوب گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا گیا۔ کبھی خالہ ، ماموں کے بچوں کے ساتھ ساحل سمندر پر پکنک منائی جاتی تو کبھی چچا، تایا اور پھوپھو کے گھر والوں کے ساتھ باربی کیو کا پروگرام بنتا۔ غرض بچوں نے اس ٹرپ کو خوب انجوائے کیالیکن زویا میں ایک نمایاں تبدیلی یہ واقع ہوئی کہ اس نے خوابوں کی دنیا میں جینا شروع کردیا اور یہ خواب دکھانے والا کوئی غیر نہیں بلکہ اس کا اپنا تایازاد کزن تھا۔ اونچے لمبے افسر بھائی جو انجینیئرنگ کے آخری سال میں تھے، خاندان بھر میں پڑھاکو کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے جب 16 سالہ معصوم زویا کو دیکھا تو لمحہ بھر میں اس کی خوبصورتی اور معصومیت کے اسیر ہوگئے۔ وہی افسر بھائی جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے ،اب بہانوں سے کزنز کی محفلوں میں شریک ہونے لگے۔ ان کی اس تبدیلی پر سب ہی حیران تھے خاص طور پر ان کی والدہ جنہیں اپنے لائق فائق بیٹے پر کچھ زیادہ ہی غرور تھا۔ آخر ایک دن موقع پاکر افسر نے زویاکے لئے اپنی پسندیدگی کااظہار کردیا۔ ساتھ ہی بہت سے وعدے بھی کئے کہ پڑھائی مکمل ہوتے ہی اور نوکری ملتے ہی وہ زویا کو بیاہ کر لے جائیں گے ۔نادان زویا جسے ابھی دنیا کی ہوا نہیں لگی تھی بڑے آرام سے اس خوبصورت فریب کا شکار ہوگئی۔ اس کی آنکھیں جاگتے ہوئے بھی خواب دیکھنے لگیں۔
جب واپسی کے دن قریب آئے تو زویا بڑی پریشان تھی لیکن افسر نے اسے بڑی تسلی دی بلکہ نئے سال کے گفٹ کے بہانے موبائل بھی تحفے میں دے دیا کہ اس کے ذریعے دونوں میں رابطہ رہے گا۔ خلیجی ملک واپسی پر باقی بچے تو اپنی اسکول کی مصروفیات میں گم ہوگئے مگر زویا کا تو برا حال تھا۔ اب نہ تواس کا پڑھائی میں دل لگتا تھا اور نہ ہی کسی گھر کے کام میں۔ یہاں تک کہ بہن بھائیوں کے ساتھ مل بیٹھنا ، ہنسنا بولنا بھی اس نے بہت کم کردیا تھا۔ بس اکثر اپنے کمرے میں بند رہتی۔ افسر کے میسجز کا انتظار کرتی یا پھر خود کبھی کبھار فون کرلیا کرتی۔ یوں یہ روابط پروان چڑھتے رہے ۔ ماں بے چاری چھوٹے بچوں اور گھر کی دوسری مصروفیات میں یوں مگن تھی کہ اسے کچھ اندازہ ہی نہ ہوسکا۔ وہ تو جب زویا کے اسکول سے شکایت آئی کہ آجکل پڑھائی پر زویا کی توجہ بالکل نہیں اور ماہانہ ٹیسٹوں میں بڑی خراب رپورٹ آئی ہے تو آسیہ بیگم نے زویا کے معمولات پر توجہ دینا شروع کی۔ دو تین دن تک خاموشی سے جائزہ لینے پر انہوں نے محسوس کیا کہ زویا آجکل موبائل پر بہت مصروف رہتی ہے۔ اکثر کوئی نہ کوئی میسج بھیجتی ہے یا پھر آنے والے میسج دیکھتی ہے۔ کتابیں لے کر اگر بیٹھی بھی ہے تو دھیان پڑھائی کی طرف نہیں بلکہ موبائل پر ہی ہوتا ہے۔
ایک دن زویا کے اسکول روانہ ہوتے وقت آسیہ بیگم نے چپکے سے اس کا موبائل بیگ سے نکال لیا۔ انہوں نے ان باکس کھول کر دیکھا تو گویا قیامت ہی آگئی۔ ایک ہی نمبر سے مختلف پیغامات کی بھرمار تھی۔ کہیں زویا کی آنکھوں کی تعریف تو کہیں اس کی آواز کی۔ کہیں کوئی محبت بھرا شعر لکھا ہے تو کہیں ذومعنی پیغام۔ آسیہ بیگم یہ دیکھ کر سن ہوکر رہ گئیں کہ ان کی بچی تباہی کے کس رستے پر چل پڑی اور وہ بے خبر رہیں۔رہ رہ کر ان کا ضمیر انہیں ملامت کررہا تھا کہ نادان لڑکی کے ہاتھ میں موبائل جیسی آفت کیوں تھمائی تھی۔
اسکول سے واپسی پر پہلے تو زویا سیدھی اپنے کمرے میں گئی اور موبائل وہاں نہ ملا تو ماں سے دریافت کیا لیکن ماں نے نفی میں جواب دیا۔ جھنجھلا کر زویا نے پھر کمرے میں موبائل تلاش کرنا شروع کردیا۔ بچوں کو کھلا پلا کر اور سلا کر آسیہ بیگم بیٹی کے کمرے میں آئیں تو یہ دیکھ انہیں بہت غصہ آیا کہ زویا نے یونیفارم تبدیل کیا اور نہ ہی کتابیں وغیرہ اپنی جگہ پر رکھیں۔ بہرحال انہوں نے ٹھنڈے دل سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور زویا سے پوچھا کہ وہ موبائل کے لئے اتنی پریشان کیوں ہے؟ ابھی زویا نے جواب دینے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ ماں کی مٹھی میں موبائل بیل گونجی اور اسکرین جگمگائی ۔ زویا لپک کر آگے بڑھی اور موبائل ماں کے ہاتھ سے لینے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہی۔ انہوں نے میسج اوپن کیا تو خون کھول کر رہ گیا۔ اسی نمبر کی طرف سے پھر ایک بے ہودہ پیغام موجود تھا۔ غصے سے بے قابو ہوتے ہوئے انہوں نے موبائل زویا کے منہ پر دے مارا اور پوچھا کون ہے یہ کم بخت؟ شرمندگی اور ذلت کے احساس سے زویا نے رونا شروع کردیا۔ انہوں نے اسے اپنے سے لپٹا لیا اور سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ راستہ تباہی کا راستہ ہے لیکن زویا تو افسر کی محبت میں اتنی اندھی ہوچکی تھی کہ ماں کی باتیں اسے دشمنی لگیں۔ بڑے زعم سے اس نے جواب دیا، نہیں امی نہیں! میری محبت اتنی کمزور نہیں ۔ بس آپ دیکھئے گا، جو نہی افسر کو نوکری ملے گی، وہ اپنی ا می کے ذریعے رشتہ بھیج دیں گے۔
ماں نے کہا کہ بیٹا! تم اپنی تائی کو نہیں جانتیں۔ وہ کبھی اس رشتے پر تیار نہیں ہوں گی۔ ماں نے کانپتے ہوئے لہجے میں کہا۔ کیسے نہیں مانیں گی؟ افسر کی ضد کے آگے انہیں جھکنا ہی ہوگا۔ زویا نے پھر اپنی بات پر زور دیا مگر میری بچی یہ تو سوچ لیا ہوتا کہ اس طرح ماں باپ کو دھوکہ دے کر تم کون سی خوشیاں حاصل کرسکوں گی؟ تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ جب تمہارے ابو کو اس بات کا علم ہوگا تو کیسے ان کا سر مارے شرم کے جھک جائے گا۔
ماں کا سمجھانا بجھانا سب بے کار گیا۔ دن تیزی سے گزرتے جارہےت ھے آخر آسیہ بیگم نے تنگ آکر عظمت صاحب سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن انہی دنوں انہوں نے یہ بتاکر پوری فیملی کو حیران کردیا کہ اس مرتبہ سردیوں کی دس زورہ چھٹیوں میں وہ پاکستا ن جارہے ہیں اور جب وہاں پہنچیں گے تو ایک سرپرائز ان کا منتظر ہوگا۔ آسیہ بیگم بہت الجھ سی گئی تھیں کہ وہ شوہر کو کس طرح زویا کے بارے میں بتائیں۔
ادھر زویا بھی کچھ پریشان سی تھی۔ کافی دنوں سے نہ تو افسر کا کوئی مسیج آیا تھا اور نہ ہی وہ کال کا جواب دے رہا تھا۔ اذکیٰ سے جب افسر کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ انہیں لاہور میں بڑی اچھی جاب مل گئی ہے اور پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے وہیں ہیں لیکن موبائل تو ان کے پاس ہی ہوگا پھر وہ میری کال کا جواب کیو ں نہیں دے رہے؟ زویا نے سوچا۔
آخر جانے سے ایک رات پہلے آسیہ بیگم نے اپنے شوہر کو زویا اور افسر کے بارے میں بڑے سنبھل سنبھل کر بتایا اور یہ بھی کہا کہ عظمت اس رشتے کے سلسلے میں اپنے بڑے بھائی سے بات کریں لیکن یہ سنتے ہی عظمت تو غصے سے پاگل ہوگئے پھر انہوں نے بیگم کو بتایا کہ ان چھٹیوں میں ان کے بھائی نے ہی انہیں افسر کی شادی میں مدعو کیا ہے۔ آخر کس منہ سے وہ اپنی بیٹی کے رشتہ کے بارے میں کہہ سکتےہ یں۔ اتنی بڑی خبر سن کر آسیہ بیگم بھی دنگ رہ گئی گویا زویا کو کچھ خبر ہی نہیں ہے۔ وہ یونہی اس بے وفا کے لئے دیوانی ہورہی ہے۔
روانگی کے دن ایئر پورٹ سے نکلنے سے صرف تین گھنٹے قبل آسیہ بیگم نے زویا کو افسر کی شادی کے بارے میں بتایا تو زویا نے پہلے تو اس پر یقین کرنے سے ہی انکار کردیا لیکن پھر گہرے صدمے کی وجہ سے آنسو بہانے لگی۔ کچھ ہی لمحوں بعد وہی زویا جو افسر کی محبت پر بڑی نازاں تھی، ماں کی منتیں کررہی تھی کہ کسی طرح یہ شادی رکوا دی جائے لیکن ظاہر ہے یہ سب کچھ ان کے بس میں نہیں تھا۔ 
کراچی ا یئرپورٹ پر اذکیٰ ، علینا ، چچا اور دوسرے کزنز سب انہیں لیے آئے ہوئے تھے مگر افسر کہیں نظر نہ آیا۔ پھوپھو کے گھر پہنچے تو اذکیٰ نے زویا کو اپے کمرے میں لے جاکر موبائل پر زارا کی تصویر دکھائی جو اسے افسر کی چھوٹی بہن رافعہ نے بھیجی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ زارا ایک ماڈرن سی لڑکی ہے جو لاہور میں افسر کے آفس مںی ہی شوقیہ جاب کرتی ہے کیونکہ اس کا باپ تو بڑا پیسہ والا ہے۔ رافعہ نے یہ بھی بتایا کہ زارا نے ہی افسر کو پسند کرکے جلد شادی کیلئے دباﺅ ڈالا ورنہ تائی تو اس رشتے کے لئے تیار ہی نہیں تھیں۔ 
یہ سن کر زویا کو کچھ امید بندھی۔ اس نے لاہور میں افسر کے آفس کا نمبر لیا اور کال کی۔ لیکن افسر نے زویا کی آواز پہنچانتے ہی فون بند کردیا۔ اگلے روز عظمت صاحب نے اپنے بڑے بھائی سے ڈھکے چھپے لفظوں میںزویا اور افسر کے رشتہ کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تویہ جا ن کر وہ حیران رہ گئے کہ ان کے بھائی تو خود افسر اور زارا کی شادی سے خوش نہیں ہیں لیکن بقول ا ن کے اب افسر اور اسکی ماں پوری طرح زارا کے جال میں پھنس چکے ہیں اور یہشادی رکوانا ناممکن ہے۔ خیر ایک آخری کوشش کے طور پر میں تمہاری بھابھی سے بات کرکے دیکھتا ہوں لیکن مشک ہے کہ یہ بات اس کی سمجھ میں آگئے۔ 
بات تو خیر تائی جان کو کیا سمجھ آتی، انہیں تو یہ بات سنتے ہی پتنگے لگ گئے کہ عظمت اور آسیہ ان کے بیٹے کا رشتہ حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ فوراً زویا کی پھوپھوی سارہ کے گھر پہنچیں اور چیخ چیخ کر آسیہ اور عظمت کو ذلیل کرنا شروع کردیا۔ ارے تم لوگوں کو شرم نہ آئی اپنے منہ سے بیٹی کا رشتہ دیتے ہوئے۔ میرے افسر کیشادی کو نظر لگانے آئے ہو کیا؟
یہ جانے بغیر کہ اصل گل تو خود ان کے بیٹے کے کھلائے ہیں انہوں نے زویا پر بے جا الزامات لگانے شروع کردیئے۔ شدید بے عزتی کے احساس سے پہلے تو آسیہ کا چہرہ سفید پڑنے لگا اور پھر ایک دم سے وہ چکرا کر گر پڑی۔ عظمت صاحب فوراً ایمرجنسی کی طرف بھاگے لیکن افسوس آسیہ کا دل یہ بے عزتی اور صدمہ سہہ نہ سکا اور اپنے چاروں بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
اور زویا اس کے دل میں تو پچھتاوے کی وہ آگ جلنے لگی جو شاید اب زندگی بھر اسے چین سے نہ جینے دے۔ رہ رہ کر ماں کے آخری لمحات اس کی نگاہوں میں گھومنے لگتے اور وہ دل تھام کر رہ جاتی کہ میں تو اپنی ماں سے معافی بھی نہ مانگ سکی۔ اس کا دل تڑپ تڑپ کر سوال کرتا کہ آخر قصور کس کاتھا؟ اس کی معصومیت کا؟ افسر جیسے لااُبالی اور دل پھینک لڑکے کا یا پھر موبائل کی منحوس ایجاد کا۔ 
 

شیئر: