کائنات کی عظیم نعمت، قدرت کا بے مثال تحفہ”ماں“
عنبرین فیض احمد۔ ینبع
ماں محبت ایثار و مروت ، صبرو رضا اورخلوص و وفا کی روشن مثال ہے۔ یہ ایسا سایہ دار درخت ہے جس کی چھاﺅں اپنے بچوں کیلئے کبھی کم نہیں ہوتی۔ نہ ہی اس پر کبھی خزاں آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں کی گود دنیا کا سب سے پہلا اور بڑا مکتب ہے۔ یہ تہذیب و شائستگی کا گہوارہ ہے ۔ کائنات کا سب سے پرخلوص اور انمول رشتہ ہے۔ زندگی کی تاریک راہوں پر ماں ہی روشنی کا مینار بن کر ابھرتی ہے۔ ماں کائنات کا خوبصورت ترین تحفہ بھی ہے جس کی محبت، شفقت ، خلوص اور وفا اپنے بچوں کیلئے کسی کی محتاج نہیں ہوا کرتی۔
بچہ جب دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ ماں ہی ہوتی ہے جو اسے دنیا کے رنگوں سے آشنائی کراتی ہے۔ ورنہ بچہ بھلا کیا جانے اس دنیا کے رنگ۔ماں ہی اسے بولنا سیکھاتی ہے۔ پھر وقت کے ساتھ بچہ بہت کچھ سیکھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے انگلی پکڑ کر چلنا بھی سکھاتی ہے۔ کبھی اگر بچہ چلتے چلتے گر جاتا ہے تو ماں ہی دوڑ کر اسے اٹھاتی اور بے تحاشا پیار کرتی ہے۔ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بچہ جو کچھ بھی سیکھتا ہے ،اس میں ماں کا ہی کمال ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بچہ اسکول جانے کے قابل ہوجاتا ہے تو بھی ماں اس کیلئے یونیفارم تیا ر کرتی ہے ، ناشتہ بناتی ہے ، چھوٹی چھوٹی چیزوں اور ضروریات کا خیال رکھتی ہے ، بچے کی بے سروپا فرمائشوں کی تکمیل میں بھی ماں کاہی ہاتھ ہوتا ہے۔ بچے کو اسکول سے واپسی میں ذرا بھی تاخیر ہوجائے تو ماں اس وقت تک پریشان رہتی ہے جب تک وہ اسے نظر نہیں آجاتا۔ ماں اپنی زندگی بچے پر قربان کردیتی ہے ۔ بچوں کو کبھی اپنی ماں سے یہ کہنا نہیں پڑتا کہ ہمارے لئے دعائیں کریں۔
ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد کو دنیا کی ہر نعمت حاصل ہوجائے ۔ بچے کی زندگی میں کسی چیز کی کوئی کمی نہ ہو۔ ماں کیلئے پہلی ترجیح اس کے بچے ہوتے ہیں۔ماں خواہ شہرکی باسی ہو یا دیہات کی ماسی ، علم کی دلدادہ ہو یا عقل سے پاپیادہ،فیشن کی شوقین ہو یا طرزِ کہن کی امین ہو، پیکر حُسن و جمال ہو یا بدصورتی کی ایک مثال ہو، ماں بس ماں ہوتی ہے۔ ماں کی محبت کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ماں کی محبت غیر مشروط ہوتی ہے۔ ماں تو اولاد کی قدم قدم پر رہبر ہوتی ہے۔ انسانی رشتوں میں سب سے مقدس اور محترم رشتہ ماں کا ہی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ والدین اور بالخصوص ماں کے مقام و مرتبے میںکوئی اور رشتہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ماں اس کائنات کی عظیم نعمت ہے ۔ ماں کے وجود سے ہی جہانِ رنگ و بو میں رونق اور دلکشی ہے۔ زندگی میں لطف و بہار بھی ماں کے دم سے ہے۔ بچوں کی خوشیوں کا جہاں ماں کے باعث ہی آباد رہتا ہے۔ماں ایک ایسا لفظ ہے جیسے سنتے ہی ذہن میں شفقت، خلوص، صبر ، قربانی سے معمور احساسات موجزن ہونے لگتے ہیں۔ ماں قدرت کا انمول و بے مثال تحفہ ہے ۔
چشم تاریخ نے ایسے بے پناہ واقعات دیکھے ہیں جو اولاد کے دل میں ماں کی بے انتہا عزت و محبت کا ثبوت ہیں۔ انہیں سن کر دل رشک کرنے لگتا ہے کیونکہ ماں وہ ہستی ہے جس کی جتنی بھی عزت و قدر کی جائے، کم ہے۔ ماں نام ہے محبت ، اخوت ، خوشی، مسرت قربانی اور بے لوث دعاﺅں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا ۔ خوبصورت رنگوں کا ۔ قوس و قزح کا حسین منظر جو دکھائی دیتا ہے وہ صرف اور صرف ماں کے وجود کا عکس ہے۔ دکھ درد کی اذتیوں کو ہنستے مسکراتے اپنے دامن میں سمیٹ لینے والی ہستی کا نام ہی ماں ہے۔ ماں ایک رشتے کا نام نہیں بلکہ لطیف جذبے اور احساسات کا نام ہے جسے صرف محسوس کیاجا سکتا ہے ، الفاظ میں بیان نہیںکیاجا سکتا ۔
الغرض ماں کا رشتہ تمام رشتوں سے قیمتی ہے۔ وہ اپنے بچے کو طرح طرح کی تکالیف برداشت کرکے پالتی ہے۔ اس کی پرورش کرتی ہے مگر بچے کے آرام میں خلل نہیں آنے دیتی۔ اپناپیٹ کا ٹ کر گزارہ کر لیتی ہے مگر بچے کو بھوکا نہیں دیکھ سکتی۔ خوش نصیب ہے وہ اولاد جو سال میں ایک بار پھول یا کارڈ بھیج کر نہیں بلکہ روزانہ اور ہر لمحہ ماں کے قرب کی متمنی رہ کر اس کی دعائیں لے کر دن کا آغاز کرتی ہے ۔ جس طرح بچپن میں ماں نے بچوں کی پرورش کی ہوتی ہے، وہی لمحات اولاد اسے لوٹا نہیں سکتی اگر ایسا ہوجائے تو کیا ہی اچھا ہو کیونکہ ماں جیسی دولت تو دنیا میں اور کوئی نہیں جو اپنی قربانیوں کے بدلے کچھ نہیں مانگتی ،بس ہمیشہ اپنے بچوں میںپیار و محبت ہی بانٹتی رہتی ہے۔ جب تک ماں زندہ رہتی ہے، اپنے سارے بچوں کو جوڑے رکھتی ہے۔ ادھر اس کی آنکھ بند ہوئی اور اُدھر خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ ماں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی دعائیں بچوں کی تقدیریں بدل دیتی ہیں۔ دیکھا جائے تو ماں کی شفقت و محبت سے ہی سکون حاصل ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ماں اولاد کے لئے خاص مقام رکھتی ہے۔ وہ ایک سایہ دار درخت کی حیثیت رکھتی ہے جس کے سائے میں اس کی ساری اولادیں آکر سکون پاتی ہیں ۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ " ماواں، ٹھنڈیاں چھاواں۔"
ماﺅں کویہ دعا بھی مانگنی چاہئے کہ اے میرے رب کریم ،میری اولاد کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔مجھے ایسی اولاد عطا فرما جو فرمانبرادر ہو جو میرے لئے صدقہ جاریہ بنے۔
اولاد کو چاہئے کہ ماں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے اپنی دین و دنیا سنوارے اور یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ دے ۔ ایسا نہ ہو کہ وقت آگے نکل جائے اور آپ کے ہاتھ پچھتاوے کے سوا اور کچھ نہ آسکے۔