بشار الاسد کی بقاءکیلئے ایران کا شام سے خروج ناگزیر
عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
ایران اور شام کے حکمراں یہ چکر چلا رہے ہیں کہ بیک وقت 2ہدف پورے کرلیں۔ پہلا تو یہ کہ بشارالاسد کا نظام حکومت جوں کا توں برقرار رہے۔ دوم یہ کہ ایران شام میں فوجی سراغرسانی اور ملیشیاﺅں سمیت پوری قوت کے ساتھ جس طرح رہ رہا ہے، اسی طرح آئندہ بھی رہے۔ ان 2باتوں کو چھوڑ کر کسی بھی معاملے پر گفت و شنید کی جاسکتی ہے۔ امریکہ نے اس کے برعکس بات کی ہے۔ امریکہ کاکہناہے کہ بشار الاسد کو اپنا نظام حکومت برقرار رکھنا ہے تو اسے شام سے ایران کو نکالنا ہوگا۔اسکے سوا کسی بھی موضوع پر شام سے گفت و شنید ہوسکتی ہے۔
زمینی منظر نامہ بتا رہا ہے کہ عہدیداروں کے پے درپے دورے اور بیان بازیوں سے توقعات کا دائرہ محدود سے محدود تر ہوتا جارہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ ایران اور اس کی ملیشیاﺅں کو درعہ کے معرکوں سے دور رہنے کیلئے کہا جارہا ہے۔ درعہ، شام، اردن اور اسرائیل کا وہ تکون ہے جہاں ایران کو پھٹکنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ ایران اسکی پابندی کریگا تب ہی امریکہ نواز کرد عسکری دستے ” قسد“، منبج(manbij) سے نکلیں گے۔ شام اور ترکی یہی چاہتے ہیں کہ ترک فوجی دستے منبج کو خیر باد کہہ دیں۔ شامی وزیر خارجہ ولید المعلم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ منبج سے امریکہ نواز کرد دَستے صرف اس صورت میں نکلیں گے جبکہ ایران درعہ میں موجود اپنی افواج کو نکال لے۔ اس کے بعد دمشق حکام سے مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ ایرانی زبان حال سے اس بات کی رضامندی دے رہے ہیں کہ امریکہ دریائے فرات کے مشرق میں اپنی افواج قائم رکھے البتہ اسکے بدلے درعہ کے باہر ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی زیر قیادت افواج کو رہنے کا موقع دیا جائے۔ یہ مقام اسرائیل کی سرحدو ںسے صرف 20کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ شام یہ طریقہ کار اپنا کر ایک طرح سے عالمی منظوری کے ساتھ ایران کو اپنے یہاں فوجی وجود برقرار رکھنے کو قانونی شکل دے رہا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایران کی قابض افواج کو شام میں وہی پوزیشن حاصل ہوجائیگی جو ساتویں عشرے میں لبنان میں شامی افواج کو حاصل ہوئی تھی۔ عرب لیگ کے فیصلے پر لبنانی حکومت کی منظوری سے شامی افواج لبنان میں باقاعدہ طور پرداخل ہوئی تھی۔
اس خدشے کے پیش نظرمذاکرات اپنے اصل ایجنڈے سے خارج ہوجائیں گے لہذا بشار الاسد کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے برسراقتدار رہنا ہے تو ایرانیوں کو شام سے نکالنا پڑیگا۔ دونوں ہدف بیک وقت حاصل نہیں کئے جاسکتے۔
بعض لوگ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ اس قسم کی شرط تھوپنے کا حق کسے ہے اور کیونکر ہے؟
شامی نظام حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ جو چاہے منوا لے۔ یہ درست ہے کہ اسے اپنے اتحادیوں کے بل پر حالیہ ایام میں فتوحات نصیب ہوئی ہیں تاہم اسرائیلی حملوں کے باعث صورتحال الٹ پلٹ گئی اور شامی اتحادیوںکو بھاری خسارہ پہنچا۔ دوسری جانب حلمی برادری بھی اس صورتحال سے مطمئن نہیں۔ امریکی چاہتے ہیں کہ بشار الاسد کو اقتدار میں رہنے کا موقع دیا جاسکتا ہے لیکن اسکے بدلے شامی حکمرانوں کو شام سے ایرانیوں کو نکالناپڑیگا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ امریکہ کے 12مطالبات میں سے ایک ہے۔ امریکہ کا مطالبہ ہے کہ ایران کوشام سے اپنی افو اج بلانا ہونگی۔ ایران کیلئے شام سے نکالنا آسان نہیں۔ اگر ایران شام سے نکلتا ہے تو ایسا کرنے پر اسکا طویل المیعاد منصوبہ ختم ہوکر رہ جائیگا۔ ایرانی خارجہ پالیسی کا کلیدی عنصر یہ ہے کہ شام پر ایران کا تسلط ہو اور وہاں سے وہ پورے خطے کو اپنی دھونس میں لینے کاچکر چلائے۔ ایرانیوں کے شام سے اخراج کی شرط خود شامی نظام حکومت کیلئے ملکی خودمختاری کے تحفظ کا بھی امتحان ہے۔ آیا وہ اپنے فیصلے ازخود کرسکتا ہے یا ایرانیوں کے سامنے جھکنا ہی اسکا نصیب بن چکا ہے۔ شام اور ایران کے حکمرانوں کے انجام سے قطع نظر ایران او راسکی ملیشیاﺅں کو شام میں عسکری دستے برقرار رکھنے کی اجازت دینے سے کشیدگی بھی ہوگی۔ مستقبل میں جنگوں کے شعلے بھی بھڑکیں گے اور وقت کے ساتھ معاملات زمینی حقیقت کی شکل بھی اختیار کرلیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭