Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ارض حرمین شریفین واقصیٰ، وحدت امت کی بنیاد

 فلسطین کے مسئلے پر سعودی عرب کا مؤقف نہ ہی تبدیل ہوا ہے اور نہ ہی کسی تبدیلی کی توقع کی جانی چاہیے
 * * *
حافظ محمد طاہر محمود اشرفی
    عالم اسلام اس وقت جن مسائل اور مصائب کا شکار ہے، ان کا بنیادی سبب انتہا پسندی ، دہشت گردی ، فرقہ وارانہ تشدد اور اسلامی عرب ممالک میں بیرونی مداخلتوں کو سمجھا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ روز و شب عالم اسلام کے مستحکم ممالک کمزور ہو رہے ہیں۔ انتہا پسنداور دہشت گرد گروہ مستحکم اسلامی ممالک پر حملہ آور ہیں۔ عالم اسلام کی وحدت اور اتحاد کا مرکز مقدسات اسلامیہ ہیں اور حرمین شریفین اور الاقصیٰ اسلامی وحدت اور اخوت کی بنیاد ہیں۔ گزشتہ3 سالوں سے پاکستان علماء کونسل کی یہ کوشش رہی ہے کہ عالم اسلام کے تمام طبقات میں بالعموم اور علماء ، مفکرین اور دانشوروں کے طبقے میں بالخصوص اس بات کو عام کیا جائے کہ عالم اسلام کے مسائل کے حل کیلئے اور اسلامی مقدسات کے تحفظ، بقااور سلامتی کیلئے امت میں اختلافی مسائل کی بجائے وحدت اور اتحاد کو فروغ دیا جائے ۔
    اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم ممالک کو کمزور کرنے کیلئے فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ تشدد کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہیـ۔ اس نے شام ، عراق اور یمن کو ہی تباہ نہیں کیا بلکہ عالم اسلام کے ان ممالک کو جو بہت مستحکم اور طاقتور تھے، ان کو بھی کمزور کیا ہے ۔ ایک طرف فلسطین اور الاقصیٰ کا معاملہ ہے جس کیخلاف اسرائیل اور امریکہ بھرپور جارحیت کر رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد کے مرکز حرمین شریفین پر مسلسل حملے کئے جا رہے ہیں۔ ارض حرمین شریفین کو غیر محفوظ کرنے کیلئے عالمی قوتیں حوثی باغیوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ مملکت سعودی عرب جو عالم اسلام کی مضبوط ترین قوت اور مسلمانوں کے مقدسات کا مرکز ہے، وہ گزشتہ 2سالوں سے حوثی باغیوں کے حملوں کی زد میں ہے حتیٰ کہ رمضان المبارک کے مقدس ایام میں گزشتہ 2سالوں کے دوران 4 مرتبہ میزائل حملے اور خود کش دھماکے کئے جا چکے ہیں۔
    اسلامی سربراہی کانفرنس اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بے بس نظر آتی ہیں ۔ پاکستان علماء کونسل نے انتہاپسندی ، دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کیخلاف اور ارض حرمین شریفین کے دفاع ،سلامتی اور استحکام کیلئے اور الاقصیٰ کی آزادی اور بڑھتے ہوئے اسرائیلی مظالم کے خلاف 20 رمضان المبارک سے 30 رمضان المبارک تک ’’عشرہ تحفظ ارض حرمین شریفین واقصیٰ ‘‘ منانے کا فیصلہ کیا ، جس کا بنیادی مقصد پوری امت کی طرف سے متفقہ طور پر الاقصیٰ اور حرمین الشریفین کی دشمن قوتوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ مسلم امہ کسی بھی صورت اپنے مقدسات کے دفاع اور سلامتی کو نہیں بھول سکتی ۔ اسی طرح فلسطین سے لے کر کشمیر تک اور شام سے لے کر یمن تک مظلوم مسلمانوں کو بھی پیغام دینا ہے کہ آپ تنہا نہیں ۔ پوری مسلم امہ تمام تر کوتاہیوں کے باوجود آپ کے ساتھ ہے اور ان شاء اللہ وہ دن قریب آ رہا ہے جب مظلوم کشمیریوں ، فلسطینیوں اور شامیوں کو ان کا حق ملے گا اور عالم اسلام میں انتشار پھیلانے والی قوتیں ناکام ہوں گی۔ اتفاق اور اتحاد سے مسلم امہ اپنے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گی ۔
    یہ بات حقیقت ہے اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم امہ کے مسائل میں شب و روز جو اضافہ ہو رہا ہے، اس کے اسباب میں سے بنیادی سبب عرب اسلامی ممالک میں بیرونی مداخلت سے قائم ہونے والی وہ ملیشیائیں ، گروہ اور جماعتیں ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف انتشار پھیلانا اور مسلم امہ کو کمزور کرنا ہے ۔ ان ملیشیاؤں نے نفرت پھیلانے میں جو کردار ادا کیا ہے اور جس انداز سے تشدد کا راستہ اختیار کر کے عالم اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ہے ،اس کی مثال تاریخ کے اوراق میں خوارج اور منافقین کے علاوہ کہیں نہیں ملتی ۔
    مسلم امہ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کویوم تحفظ ارض حرمین شریفین واقصیٰ مناکر درست سمت کی طرف قدم بڑھایا ہے جس کا بنیادی مقصد حرمین شریفین اور اقصیٰ کے ساتھ نہ صرف اپنی محبت اور یکجہتی کا اظہار ہے بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دینا ہے کہ مسلم امہ فلسطین ، کشمیر اور عالم اسلام کے دیگر مسائل سے غافل نہیں ۔
    اسی طرح فلسطین کے مسئلہ پر کچھ اسلامی ممالک کا دہرا کردار بھی سوالیہ نشان پیدا کرتا ہے اور فلسطین دشمن قوتوں کو مضبوط کرتا ہے ۔ الحمدللہ پاکستان اور سعودی عرب 2اسلامی ممالک میں سے مستحکم ملک ہیں جن کا اسرائیل کے ساتھ کوئی تجارتی ، سفارتی رابطہ نہیں اور جنہوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ چند ماہ قبل فلسطین کے صدر سے مصر میں جامعہ الازہر کی طرف سے بلائی جانے والی عالمی القدس کانفرنس میں ایک ملاقات میں واضح طور پر یہ بات سننے کو ملی کہ سعودی عرب کے فرما نروا شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ان کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان نے ان کو یقین دلایا ہے کہ مملکت سعودی عرب کوئی بھی فیصلہ فلسطین کی حکومت اور عوام کی مرضی اور منشا کے خلاف نہیں کرے گی اور پھر دو ماہ بعد عرب سربراہ کانفرنس کو جس طرح القدس کا نام دیا گیا اور سعودی عرب کی طرف سے کروڑوں ڈالر کی امداد اہل فلسطین کیلئے دی گئی ،ا س سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر سعودی عرب کا مؤقف نہ ہی تبدیل ہوا ہے اور نہ ہی کسی تبدیلی کی توقع کی جانی چاہیے۔
    عالم اسلام اس وقت مصائب اور مسائل کا شکار ہے اور ان مصائب اور مسائل سے نکلنے کا راستہ بے بنیاد پروپیگنڈہ نہیں بلکہ سر جوڑ کر بیٹھ کر عملی اقدامات کرنا ہے اور ان عملی اقدامات کیلئے سب سے پہلا قدم باہمی اتحاد سے مسائل کے حل کی طرف توجہ کرنا ہوگا۔ سعودی عرب کیخلاف مسلسل حوثی باغیوں کے بڑھتے ہوئے حملے اور فلسطینی عوام پر اسرائیلی جارحیت اور القدس میں امریکی سفارتخانے کا منتقل کیا جانا ، یہ تمام چیزیں مسلم امہ کو دعوت دیتی ہیں کہ سرجوڑ کر ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جس سے مسلمانوں کے مقدسات محفوظ ہوں ۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی پھیلانے والی تنظیموںا ور تحریکوں کا سد باب کیا جائے ،نوجوان نسل کو اسلام اور جہاد کے نام پر دہشتگردی کی طرف راغب کرنے والی قوتوں کے سامنے باہمی اتحاد سے مقابلہ کرنے کیلئے کھڑا کیا جائے ۔
 
مزید پڑھیں:- - - - -ریحام کی کتاب اور پی ٹی آئی

شیئر: