Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قید تنہائی کی سزا،مکافات عمل ؟

افطار اور سحری کے وقت بھی کچھ کھانے کو نہیں تھا،معذور بیٹے کو سنبھالنا بھی80سالہ ماں کا کام ہے،تابناک مستقبل کیلئے باہر جانے والے بچے بھی پریشان
مصطفی حبیب صدیقی
میں جب ان سے ملنے گیا تو وہ گھر پر تنہا تھیں ،ایک معذور بیٹا دوسرے کمرے میں بے یارومددگار پڑ ا تھا۔یہ معذوری آج کی نہیں تھی بلکہ تقریباً بچپن سے تھی  جسے اب تقریباً45سال ہوچکے ہیں۔شارق بھائی اپنا کوئی کام بھی خود نہیں کرسکتے ۔حتیٰ کے بیت الخلاء بھی جانے کیلئے بھی مدد درکار ہے۔
شاہدہ بانو کی عمر اب 80سال سے تجاوز کرچکی ہوگی۔ان کا صرف معذور بیٹا ہی نہیں بلکہ 3کڑیل جوان بیٹے اور بھی ہیں جبکہ 2بیٹیاں بھی ہیں۔کراچی کے کھاتے پیتے علاقے میں رہائش پذیر اس خاندان کے سربراہ شفاعت احمد چارٹرڈ اکائونٹنٹ تھے۔کراچی کے بہترین ادارے میں بہت اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سی اے کے طلبہ کو پڑھاتے بھی رہے۔گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی۔بچوں نے کبھی تکلیف کا منہ نہ دیکھا تھا۔وہ کہتے ہیں نا کہ سونے کا نوالہ لے کر پیدا ہوئے تھے۔شاہدہ بانو کو اپنی دولت کا گھمنڈ تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے خاندان والوں کو زیادہ منہ نہیں لگاتی تھی جبکہ اپنے سگے بھائی کی ایک اولاد کے ساتھ بھی ان کا سخت رویہ رہا جو بہت دردناک ہے۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا ،شاہدہ بانو کے  دو لڑکوں کی شادیاں ہوگئیں جبکہ ایک بیرون ملک جابسا۔دونوں بیٹیاں بھی اپنے گھر کی ہوچکی تھیں۔شاہدہ بانوکو اپنی قسمت پر ناز تھا۔ وہ تھیں بھی خوبصورت اس لئے بھی گردن تنی رہتی تھی مگر قسمت کو اپنا کھیل کھیلنا تھا ۔کہانی میں زیادہ قصور کس کا ہے یہ قارئین آخر میں خود ہی فیصلہ کرلیں اور اگر چاہئیں تو رائے سے بھی آگاہ کریں۔
شاہدہ بانوکا منجھلا بیٹا پہلے ہی امریکہ جابسا،بیوی ساس کے ساتھ تھی مگر اکثر اپنے گھر ہی ہوا کرتی تھی جبکہ بڑا بیٹا نہایت اچھی ملازمت پر ہونے کے باوجود باہر جانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔بچے اچھے اسکولوں میں زیرتعلیم تھے مگر باہر جانے کی دھن تھی۔لاکھ سمجھایا کہ پہلے ہی دو بھائی باہر ہیں اب اگر تم بھی چلے جائوگے تو تمہارے والدین کے پاس کون رہے گا مگر جواب ہوتا کہ میں نے ہی تو ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔شاہد ہ بانو کی بھی زبان کا مسئلہ تھا،کہتے ہیں کہ ’’زبان شیریں دنیا زیریں‘‘ مگر ان کی زبان اس قدر تلخ اور خود پر اس قدر غرور تھا کہ بہوئیں بھی ناراض ہی رہتی تھیں۔پرانے لو گوں کا کہنا ہے کہ شاہدہ بانوکا اپنی ساس کے ساتھ بھی رویہ بہت تلخ رہا تھا یہاں تک کے جب ان کے شوہر یعنی شفاعت احمد اچھی پوزیشن پر پہنچ گئے تو انہوںنے خود توکراچی کے پوش علاقے میں بڑا گھر بنالیا اور وہاں منتقل ہوگئے مگر والدین کو نہیں لائے۔اس کی وجہ شاہدہ بانو کی تیزی تھی۔شفاعت احمد کے والد تو پہلے ہی گزر گئے مگر والدہ کو دیگر بھائیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اس کی وجہ انکی میٹھی زبان اور چہرے پر روحانیت تھی۔نماز روزے کی پابند اور ہر وقت ہونٹو ں پر اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کیلئے دعا سجائے رکھتی تھیں اس لیے وہ تنہا نہیں ہوئیں۔شفاعت احمد نے بھی والدہ کا  روپے پیسے سے ہر طرح خیال رکھا تاہم ساتھ نہ رکھ سکے۔
خیر بات ہورہی تھی باہر جانے کی۔بڑا بیٹا بھی اپنے بیگم کے ساتھ باہر جانے کی تیاری کرنے لگاگھر میں بوڑھے والدین تھے کہ اسی دوران کینسر سے باپ کا انتقال ہوگیا۔انتقال پر بھی دو بیٹے نہیں پہنچ سکے۔اب گھر میں بوڑھی ماں اور ایک معذور بھائی رہ گیا۔اب تو کسی صورت یہ خیال نہیں کیا جاسکتا تھا کہ بڑا بیٹا اپنی بیگم کو لیے اپنے سہانے مستقبل کیلئے باہر چلاجائے گا مگر ہوا ایسا ہی۔ایک روز وہ بھی باہر چلاگیا۔ڈبل منزلہ کئی سو گز پر مشتمل گھر میں اب صرف ایک بوڑھی ماں اور معذور بھائی رہ گئے۔ماں کی خدمت کیلئے ایک نوکرانی رکھی گئی جو کھانا پکاتی  جبکہ معذور بھائی کیلئے ایک نوکر رکھاگیا جو اس کا خیال رکھتا مگر ہر کچھ ماہ بعد نوکرانی اور نوکربھاگ جاتے ۔خاندان کے بچے پھر تلاش میں سرگرداں ہوجاتے ۔بیٹیوں کے لڑکوں کو ان کے گھر رات میں رکنا پڑتا ہے۔
بات اتنی سی نہیں ہے بلکہ معاملہ اور ہے ۔جہاں تک شاہدہ بانو کی تنہائی کا معاملہ ہے وہ الگ کہانی ہے مگر باہر جانے والے بچے کس حال میں ہیں یہ اصل کہانی ہے۔جو بچے اپنے بہترین مستقبل کیلئے بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑ کر باہر گئے تھے وہ گزشتہ کئی سالوں سے بیروزگاری الائونس پر جی رہی ہے۔ایک بیٹے نے غیرمسلم عورت کو اسلام قبول کراکے شادی کی مگر اس نے بعدازاں طلاق کیلئے کیس کردیا۔اب وہاں کے قانون کے مطابق اسے سخت مسائل ہیں۔وہ عورت بھی  سنا ہے دوبارہ مرتد ہوگئی ہے جبکہ عدالتی احکامات کے مطابق اب اسے طلاق کے بعد شوہر کے حصے کی ہر چیز میں آدھا چاہیے۔قانونی طور پر وہ کچھ خاص عرصے تک ملک نہیں چھوڑ سکتا۔اس کے پاس بھی نوکری نہیں ہے۔  مشکل ترین حالات سے گزررہا ہے۔منجھلا بیٹا بھی بیروزگاری الائونس پر ہے۔گزشتہ15سال میں بھی اس کے پاس کوئی بہتر ملازمت نہ ہوسکی۔بیوی ایک اسکول میں ملازمت کرتی ہے جبکہ وہ گھرمیں بچوں کو سنبھالتا ہے۔ایک سہانا خواب سجائے باہر جانے والا ایک ایک ڈالر کیلئے پریشان ہے۔بڑا بیٹا بھی گزشتہ کئی سال سے بیروزگاری الائونس پر ہے۔اپنی ماں کو ماہانہ 3ہزار روپے بھیجتا ہے۔وضاحت کردوں کہ 3ہزار روپے ،ڈالر نہیں۔
دوسری جانب ماں کا حال یہ ہے کہ وہ تنہائی کی وجہ سے نیم مرد ہ ہوچکی ہیں۔کہنے لگیں کہ گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے۔دیواروں سے باتیں کرتی ہوں۔میں نے پوچھا کہ اپنے بیٹوں کو کیوں نہیں کہتیں کہ وہ آجائیں تو ایک آ ہ بھری اور بس آنکھیں نم ہوگئیں۔شاہدہ بانوبتانے لگیں کہ رات کو جب ان کا معذور بیٹا جو کروٹ بھی نہیں لے سکتا آواز دیتا ہے تو وہ واکر کے ذریعے بڑی مشکل سے اس تک پہنچتی ہیں اور پھر اسے کروٹ دلاتی ہیں۔افطار کے وقت بھی افطار کرنے کیلئے گھر میں کچھ نہیں تھا جبکہ سحری بھی خالی پیٹ ہی ہوئی۔
بیٹوں سے بات کرو تو ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم چلے گئے تو پھر امی کا خرچہ کون اٹھائے گا۔مگر افسوس ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر وہ وقت پر نہیں پہنچے تو امی کو کون اٹھائے گا۔دنیا مکافات عمل ہے۔شاہدہ بانو آج تنہا ہیں تو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہوںنے جواپنے بڑوں کے ساتھ کیا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ ان کے بیٹے بھی آج ان کے ساتھ ایسا ہی کررہے ہیں مگر میں کہتا ہوںکہ اگر ان کے بیٹے ایسا کررہے ہیں تو انہیں بھی ایسا ہی بھگتنا ہوگا۔کیا یہ مکافات عمل یوں ہی چلتا رہے گا۔
بعدمیں پچھتانے سے بہتر نہیں ہے کہ ابھی عقل آجائے۔والدین تو اولاد کیلئے قربانی د یتی ہے مگر کئی مرتبہ ایسے حالات آتے ہیں کہ اولاد کو والدین کیلئے قربانی دینی پڑتی ہے۔مگر یقین جانئے جو بچے والدین کیلئے قربانی دیتے ہیں اللہ ان کا ہاتھ تھام لیتا ہے اور پھر انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔
تینوں بیٹے شاہدہ بانو کو تنہا چھوڑ کر بہتر مستقبل کیلئے گئے تھے مگر تینوں ہی مشکل میں ہیں۔غیرملکی حکومت کے رحم وکرم پر ہیں۔ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اگر ان میں کوئی ایک صرف ماں کی تنہائی کا سوچ کر واپس آجائے تو مجھے یقین ہے کہ اللہ اسے پاکستان میں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اسے وہ کچھ دے گاجس کا انہوںنے تصور بھی نہیںکیاہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: