Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

او کوئی شرم ہوتی ہے !

***جاوید اقبال***
او کوئی شرم ہوتی ہے ! او کوئی حیا ہوتی ہے !
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے تنظیم میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے اعلان کیا ہے کہ چونکہ کونسل نے اسرائیل کے فلسطینی آبادی پر مسلسل ہونے والے مظالم کے خلاف 5 قراردیدیں منظور کی ہیں اس لیے کونسل اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہوچکی ہے۔ بنا  بر ایں امریکہ نے انسانی حقوق کونسل سے اپنی رکنیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور نکی ہیلی نے انسانی حقوق پر کچھ مزید الزامات بھی لگائے ہیں۔ انہوں نے خصوصا کانگو میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کونسل نے انسانی حقوق کی اتنی بہیمانہ خلاف ورزیوں کے باوجود کانگو کی رکنیت بحال رکھی ہے۔ کونسل اپنی ساکھ کھو چکی ہے اس لیے امریکہ اس تنظیم کی رکنیت ترک کررہا ہے۔
او کوئی شرم ہوتی ہے ! او کوئی حیا ہوتی ہے !
بات کانگو سے چلے گی ۔ میں نے کچھ عرصہ اس مقام پر بھی قیام رکھا تھا جہاں کانگو کی آزادی کی خونچکاں داستان کی تکمیل ہوئی تھی۔ گھنے جنگلات اور تاریکیوں کی اس سرزمین کے نیچے کوکھ میں جواہرات اور سونا محو خواب تھے اور انہیں برسوں بلجیم کا استعمار بلامعاوضہ نکالتا رہا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پرجب افریقہ میں تحریک آزادی اٹھی تو کانگو کو بھی ایک نوجوان راہنما نے جھنجھوڑ کر بیدار کیا۔ سیاہ فام پیٹرس لوممبا اپنے وطن کی ہر آنکھ کا تارا بن گیا۔ جدوجہد کا آغاز ہوا اور بلجیم کے ملک معظم کو مطالبہ منظور کرنا پڑا۔ کانگو کو آزادی دینے کا اعلان ہوگیا لیکن ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ بلجیم کا خیال تھا کہ یہ آزادی صرف تحریر تک محدود رہے گی۔ ہیروں ، سونے اور دیگر جواہرات کی کانوں پر ملک معظم کی حکومت کا ہی قبضہ رہے گا۔ مسئلہ یہ ہوا کہ جب جون 1960ء میںکانگو کے دارالحکومت میں بلجیم کے شہنشاہ معظم نے اس سیاہ فام ملک کو پروانہ آزادی عطا کیا تو نومنتخب وزیراعظم سیاہ فام پیٹرس لوممبا نے اعلان کردیا کہ نو آزاد ملک کے قدرتی وسائل اب سیاہ فاموں کے لیے تھے اور یہ کہ اب سفید فام بلجیم کو اپنا بوریا بستر لپیٹنا پڑے گا۔ سفید فام آقا ششدر رہ گئے۔ برسوں سے غلام سیاہ فام آقا بن جائیں کیسے ہوسکتا تھا؟ چنانچہ اندر کے ہی کچھ آدمی تلاش کرلیے گئے اور انہیں لالچ دے کر لوممبا کے خلاف بغاوت کرادی گئی۔ انہی اندر کے آدمیوں میں کانگو کی سیاہ فام فوج کا کرنل موبوٹو سیسے سیکو بھی تھا جس نے امریکہ بہادر کے اشارے پر ہر دلعزیز راہنما لوممبا کو گرفتار کیا اور پھر اس کے فوجیوں نے رات کی تاریکی میں جنگل میں قیدی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ امریکی صدر آئزن ہاور نے بذات خود سی آئی اے کے ڈائریکٹر کو حکم دیا تھا کہ پیٹرس لوممبا سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ جنگل میں رات کی تاریکیوں میں انتہائی وحشیانہ انداز سے قتل کیے جانے والے نوجوان لوممبا کی قبر کسی کے علم میں نہیں لیکن آج بھی اس کے ہموطن اسے یاد کرکے دلگیر ہوتے ہیں۔ اس کی موت کو اپنی بدنصیبی اور عسرت کا سبب قرار دیتے ہیں۔ فوجی کرنل موبو ٹوسیسوسیکو نے سی آئی اے کا حکم مان کر اپنے آپ کو آئزن ہاور کی اچھی کتب میں داخل کرالیا۔ 17 جنوری 1961ء کو لوممبا کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد وہ اپنی فوجی وردی میں ہی ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ امریکہ کی آنکھ کا تارا بنا اور مئی 1997ء تک تین دہائیوں سے بھی بیشتر وقت بلامقابلہ کانگو کا صدر بنا اپنا ملک لوٹتا رہا۔ انسانی حقوق اس کے نزدیک دفتر بے معنی تھے۔ فوجی آمریت ہر اٹھنے والی صدا کو خاموش کرتی رہی اور ان 3 دہائیوں میں آنے والی ہر امریکی حکومت اس کی پیٹھ تھپکتی رہی۔ کانگو میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور گمنام اجتماعی قبروں کا وجود آج کا قصہ نہیں۔ یہ تو استعمار کے تحفے ہیں جو ہر غلام کے نصیب میں لکھے جاتے ہیں۔ آئزن ہاور ! سی آئی اے! وطن پرست راہنما پیٹرس لوممبا کا بھیانک قتل اور امریکہ کی انسانی حقوق کونسل سے علیحدگی !
او کوئی شرم ہوتی ہے ! او کوئی حیا ہوتی ہے !
میں زیادہ دور نہیں جاؤں گا  ۔ ۔ ۔۔  اور یہ سب کچھ میرا آنکھوں دیکھا ہے جنوری 1979ء کے آخری ہفتوں کا وقت تھا۔ شیراز کی خیابان زند پر دانشگاہ پہلوی کے بالمقابل ایک بڑا بھیانک سا صدر دروازہ تھا۔ صبح سویرے جب ہم اس کے سامنے فٹ پاتھ پر سے گزرتے تو اس صدر دروازے کے سامنے کا فرش دھویا ہوا ہوتا۔ غور سے دیکھنے پر کہیں کہیں خون کے نشانات ملتے۔ یہ دروازہ شاہ ایران کی ہیبت ناک تنظیم ساواک کے صدر دفتر کا تھا۔ رات کے کسی پہر جب شہر پر کرفیو ہوتا ساواک کے اہلکار شہریوں کو گرفتار کرکے گاڑیوں میں بھر بھر کر لاتے۔ جب انہیں نکال کر عمارت کے اندر لے جانے کی کوشش کی جاتی تو وہ مزاحمت کرتے۔ ساواک کے اہلکار اپنے آہنی ڈنڈوں سے انہیں وہیں فٹ پاتھ پر ہی مارنا شروع کردیتے۔ رات کی تاریکی میں خون اچھلتا ، پھیلتا ، گرتا ، زخمی قیدیوں کو دھکے دے کر صدر دروازے کے اندر ریوڑ کی طرح بھردیا جاتا پھر دروازہ بند ہوجاتا۔ روشنی ہونے سے پیشتر خون دُھو دیا جاتا۔ لیکن کہیں کہیں سرخ دھبے رہ جاتے۔ صبح بند صدر دروازے پر اندوہناک سکوت طاری ہوتا۔ راہگیر سہمے سہمے سامنے سے گزرتے رہتے  ۔  ۔  ۔  شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی آریا مہر ، 1946 ء سے 33 برس تک ہر امریکی صدر کی آنکھوں کا چاند بھی ، تارے بھی اور ساواک کے صدر دروازے کے سامنے انسانی لہو کے نشانات اور عقب میں شہریوں کے مجروح بدن اور ان کی بے نور آنکھیں اور لاشیں ! اور انسانی حقوق کونسل سے امریکہ کی آج علیحدگی ! تب کوئی نکی ہیلی کہاں تھی؟
او کوئی شرم ہوتی ہے ! او کوئی حیا ہوتی ہے !
میں دور اب بھی نہیں جاتا ! ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں سوا لاکھ شہداء کی قبریں ، ہزاروں یتیم بچوں کا گریہ اور بیواؤں کی آہ و بکا اور گزشتہ 7 دہائیوں کا ظلم و تشدد ! ہندوستانی قابض فوج کے بے پناہ ظلم و ستم سے مجروح انسانیت ! کیا امریکہ کو یہ نظر نہیں آتا؟ اور ہر روز اپنی جانیں دینے والے فلسطینیوں کی طرف مائیک پومپیو اور نکی ہیلی کی نظریں کیوں نہیں اٹھتیں؟ جب ایک اسرائیلی فوجی کے گھٹنے کے بے پناہ دباؤ تلے 8,9  سالہ معصوم فلسطینی بچے کی کھوپڑی چٹختی ہے اور وہ کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے جان دیتا ہے تو تب ان امریکی اہلکاروں کو انسانی حقوق یا دنہیں آتے؟ جب ایک فلسطینی بچی کو حجاب نہ اتارنے پر اسرائیلی سپاہی گولی مارتا ہے تو ان کے دلوں کے کسی بھی گوشے میں شمہ بھر بھی جذبہ ترحم پیدا نہیںہوتا ! اور ایک ستمگر ، غاصب ، متشدد ، قاتل کے خلاف جائز قرار دادیں منظور ہوئیں تو مائیک پومپیو اور نکی ہیلی تڑپ اٹھے؟ محفل سے ہی اٹھ گئے؟
او کوئی شرم ہوتی ہے ! او کوئی حیا ہوتی ہے !
 

شیئر: