عسکری جنگوں کا زمانہ لد گیا
ڈاکٹر عبداللہ صادق دحلان ۔ عکاظ
مجھے نہ جانے کیوں بہت زیادہ یقین تھا اور اب بھی ہے کہ آئندہ کوئی عالمی جنگ نہیں ہوگی۔ بڑے ممالک کے قائدین تیسری عالمی جنگ کی منصوبہ بندی کے لئے عسکری محاذوں کا سہارا نہیں لیں گے۔ وجہ ظاہر ہے کہ جنگ سے المیے، پسماندگی اور تہذیب و تمدن کی تباہی و بربادی ہی جنم لے گی اور کچھ نہیں۔ پہلی و دوسری عالمی جنگوں میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ لاکھوں گھر سے بے گھر ہوئے۔ نہ جانے کتنے غربت اور فاقہ کشی کے گرداب میں پھنسے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے تاہم مجھے بڑے ممالک کے درمیان اقتصادی جنگ کے حوالے سے بڑی تشویش ہے۔ اسکے نتائج عالمی اقتصاد کو بھگتنے پڑیں گے جس سے تمام صنعتی ممالک ، ترقی پذیر ممالک اور کم ترقی پذیر ممالک کی معیشت جڑی ہوئی ہیں۔ بین الاقوامی اقتصادی طاقتوں میں فرق عالمی اقتصادی توازن کاباعث بنا ہوا ہے۔
ایک طرف امریکہ ہے جس کا اقتصادی نظام دنیا بھر کی اقتصادی طاقتوں میں سرفہرست رہا۔ اب چین امریکی اقتصادی نظام کے حلیف کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے اور اقتصادی بحرانوں سے دوچار ہونے کے باعث امریکی اقتصاد کو چیلنج کرنے لگا ہے۔ چین کا اقتصادی دائرہ مسلسل پھیلتا جارہا ہے۔ چین کی خارجی تجارت بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کی تمام منڈیوں کی جانب چینی یلغار جاری و ساری ہے۔
امریکی مارکیٹ کے لئے چینی برآمدات کا حجم گزشتہ برس 500ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ امریکی صدر نے اس خدشے کے پیش نظرکہ چینی برآمدات امریکی مارکیٹوں پر چھا جائیں گی اور ان سے بعض امریکی مصنوعات پر منفی اثرات پڑیں گے، انہوں نے چینی درآمدات پر 60ارب ڈالر کی کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ جاری کردیا۔ چینی اقتصاد پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ امریکی صدر نے جو فیصلہ کیا ہے وہ تاریخی ہے۔ اسٹراٹیجک ہے۔ اس سے قبل کسی امریکی صدر نے اسکی جرا¿ت نہیں کی تھی۔ وہ اپنے حریفوں خصوصاً چین کو ڈرانے دھمکانے کی پالیسی تک خود کو محدود کئے ہوئے تھے۔ امریکہ کے سابق سربراہ چین پر یہ الزام مسلسل لگاتے رہے کہ وہ اپنی برآمدات اور معیشت کے فروغ کیلئے کرنسی سے کھیل رہا ہے۔
میرے نقطہ نظر سے امریکی صدر کا فیصلہ چین پر پابندی کے حوالے سے تشدد بھرا ہے۔ چین پر بین الاقوامی منڈیوں کے خلاف اقتصادی جارحیت کا الزام ہے۔ چین پر کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے بھی الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب جبکہ دونوں بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان اقتصادی جنگ کی شروعات ہوچکی ہے، چینی صدر امریکی فیصلے سے کس طرح نمٹیں گے۔ یہ سوال اسلئے بھی اہم ہوجاتا ہے کیونکہ چین ماضی میں امریکی دھمکیوں کا جواب اپنی معیشت کے تحفظ کے حوالے سے عملی طور پر دیتا رہا ہے۔ چین نے امریکی صدر کے فیصلے کے بعد یہ اعلان کر ہی دیا ہے کہ وہ بھی امریکی مصنوعات پر 3ارب ڈالر کی کسٹم ڈیوٹی مقرر کریگا۔ میرے نقطہ نظر سے اس جنگ میں امریکہ کا پلڑا بھاری رہیگا۔ یہ مسئلہ ایک فریق کی کامیابی اور دوسرے کی ناکامی نہیں۔
میرے نقطہ نظر سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ فریقین کو اس جنگ میں بھاری خسارہ ہوگا۔ یہ بات چینی وزیر تجارت خود کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ کیساتھ تجارتی جنگ نہیں چاہتا البتہ وہ تجارتی جنگ سے خوفزدہ بھی نہیں۔ مجبوری ہوئی تو آخری لمحے تک اس جنگ میں حصہ لے گا۔ مجھے سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ دونو ں بڑے ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ کا نقصان امریکہ اور چین دونوں کی مارکیٹوں کو ہوگا۔ سب سے زیادہ متاثر ایسی چھوٹی اوردرمیانے درجے کی کمپنیا ںہونگی جو تجارتی جنگ کی متحمل نہیںہوسکتیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر جنگ جاری رہی تو امریکہ اور چین دونوں کو نقصان ہوگا۔ دونوں ملکوں کے قائدین کو یہ بات مد نظر رکھنا ہوگی کہ اس جنگ سے دیگر ممالک کی منڈیاں اور معیشتیں بھی خسارے سے دوچار ہونگی۔ میری آرزو ہے کہ کاش ہم اس جنگ کا حصہ نہ بنیں کیونکہ یہ جنگ بین الاقوامی اقتصادی نظام کو تہہ و بالا کردیگی خصوصاً حصص اور عالمی کرنسی کی مارکیٹ زیر و زبر ہوجائیگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭