ایک ماہر تعلیم و تربیت عبداللہ الزید کو ایک بار مقدس شہر مکہ مکرمہ میں ادارہ تعلیم کا ڈائریکٹر بنایا گیا۔ انہوں نے اس دوران ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کرائی۔ انکے پاس اچھا خاصا سرمایہ جمع ہوگیا۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہیں مسجد کا انچارج بنادیا گیا۔ وہ پانچوں وقت باجماعت نماز ادا کرنے کیلئے مسجد پہنچتے۔ انہوں نے ہر فرض نما ز کے بعد نمازیوں سے امداد کی درخواست کرنے والو ں کے حوالے سے چند باتیں نوٹ کیں۔ نمایاں ترین یہ ہیں:
1۔ مساجد میں بھیک مانگنے کیلئے آنے والے منظم گروہ کا حصہ ہیں۔ سرغنے انہیں مخصوص گاڑیوں سے جامع مساجد اور عام مساجد پہنچانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ گداگر خود مختار نہیں۔ انکی غربت ، ضرورت اور حاجت کی باتیں سن کر لوگ انہیں نادار سمجھ بیٹھتے ہیں۔ حقیقت حال ایسی نہیں۔ ان میں اکا داکا واقعی ضرورت مند بھی ہوسکتے ہیں ،زیادہ تر منظم گروہ کے تابعدار ہوتے ہیں۔ یہ وقتا فوقتاًمسجد پہنچ کر مسائل کا رونا روتے اورمدد طلب کرتے ہیں۔ مساجد میں حاضری برائے گداگری کا نظام الاوقات بنائے ہوئے ہیں۔کبھی چند دن اور کبھی چند ہفتوں بعد دوبارہ مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ اذان سے قبل انہیں گاڑی سے اترتے اور سرغنہ کو وہاں سے رخصت ہوتے وقت بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔
2۔ ہر فرض نماز کے بعد گداگر اپنی بپتا سنا کر نمازیوں کی عبادت میں خلل پیدا کرتے ہیں۔ بعض گداگر تو لمبا چوڑا خطبہ دے ڈالتے ہیں۔انکے پاس ڈاکٹروں کی رپورٹیں اور قرضوں کی دستاویزات تک ہوتی ہیں۔ یہ لوگ اس یقین کیساتھ یہ سب کچھ مساجد میں پیش کرنے کی جرات کرلیتے ہیں کیونکہ اکثر لوگ انکی کوئی رپورٹ یا دستاویز دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔
3۔ مساجد کے بیشتر گداگر مخصوص عرب ممالک کے شہری ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان ممالک کے حالات دگرگوں ہیں تاہم منظم شکل میں گداگری کا یہ جواز نہیں۔ ہماری نظر میں ایسے عرب ممالک بھی ہیں جہاں امن و امان کی صورتحال زیادہ ابتر او رمالی حالات بہت زیادہ خراب ہیں تاہم ان ممالک کے باشندے کبھی بھی ان گداگروں میں نظر نہیں آتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان گداگروں کے ذریعے جمع ہونے والے عطیات اور صدقہ و خیرات کی رقم کس کی جیب میں جارہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہاں کئی سرکاری ادارے منظم گداگری کے انسداد پر مامور ہیں۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارے یا تو لمبی تان کر سوئے ہوئے ہیں کہ انکے پا س مساجد، بازاروں، پبلک مقامات اور سگنلز پر بھیک مانگنے والوں کی گرفت کےلئے مطلوب وسائل نہیں ۔