تاج محل کو مٹانے کی یہ سوچ ایک ایسے دور میں پروان چڑھ رہی ہے، جب پوری دنیا میں تاریخی ورثوں کو محفوظ رکھنے کی مہم شباب پر ہے
معصوم مرادآبادی
تاج محل کے تحفظ اور دیکھ بھال کے معاملے میں مرکزی حکومت اور یوپی سرکار کی مسلسل ناکامیوں سے ناراض ہوکرسپریم کورٹ نے جو تبصرہ کیا ہے، وہ واقعی چونکا دینے والا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ ’’تاج محل کو تحفظ فراہم کرو یا اسے بندکردو یا پھر مسمار کردو۔‘‘ عدالت عظمیٰ نے انتہائی تلخ لہجے میں کہا ہے کہ مغلیہ عہد کی اس تاریخی عمارت کے تحفظ کے معاملے میں کوئی امید نظرنہیں آتی۔ سپریم کورٹ نے اس بات پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ اترپردیش سرکار تاج محل کے تحفظ اور اس کی دیکھ بھال کے حوالے سے وژن دستاویز پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ سپریم کورٹ نے تاج محل کے تحفظ اور دیکھ بھال سے متعلق مسلسل ناکامیوں کے حوالے سے حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے ۔اس سے قبل کئی موقعوں پر ملک کی سب سے بڑی عدالت اس معاملے میں حکومت کو پھٹکار لگاتی رہی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت تاج محل کے معاملے میں جان بوجھ کر غفلت اور لاپروائی کا رویہ اختیار کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے حکومت کے اس رویے سے تنگ آکر ایسا تبصرہ کیا ہے، جو اب تک کہ تبصروں میں سب سے زیادہ سخت ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کے عجائبات میں شمار ہونے والی مغلیہ عہد کی اس بے مثال یادگار کے تعلق سے حکومت کا رویہ اتنی سرد مہری کا کیوں ہے اور وہ تاج محل کو مسلسل نظرانداز کیوں کررہی ہے۔ اگر آپ موجودہ حکومت کی نظریاتی اور فکری اساس کو دیکھیں تو اس کی نگاہ میں تاج محل محبت کی ایک لافانی یادگار کی بجائے غلامی کی ایک ایسی علامت ہے، جسے آن واحد میں مٹادینا چاہئے۔ تاج محل سے دشمنی اور عداوت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس کی تعمیر ایک مسلم بادشاہ نے کرائی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ تاج محل سے عداوت رکھنے والے ایک مخصوص نظریے کے پیروکار تاج محل کے خلاف مسلسل زہر افشانی کرتے رہے ہیں۔ دوسروں کو تو جانے دیجئے خود اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ تاج محل کے تعلق سے منفی نظریات رکھتے ہیں اور انہوں نے یوپی کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اس حوالے سے جو بیان دیا تھا، وہ انتہائی شرمناک اور تکلیف دہ تھا۔ اتنا ہی نہیں تاج محل کو اترپردیش کے سیاحتی مقامات کی فہرست سے باہر کردیاگیا تھا۔ بعد کو جب پوری دنیا میں وزیراعلیٰ کے بیان کی مذمت ہوئی تو انہوں نے تاج محل کے تعلق سے اپنا بیان تبدیل کیا لیکن ان کا نظریہ آج بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ تاج محل سے عشق کرنے والوں اور اس پر جان ودل نثار کرنے والوں کی تعداد اُن لوگوں سے بہت زیادہ ہے، جو تاج محل سے نفرت کرتے ہیں اور اسے غلامی کی نشانی قرار دے کر صفحہ ہستی سے مٹادینا چاہتے ہیں۔ تاج محل کو مٹانے کی یہ سوچ ایک ایسے دور میں پروان چڑھ رہی ہے، جب پوری دنیا میں تاریخی ورثوں کو محفوظ رکھنے کی مہم شباب پر ہے اور اس پر بے تحاشہ دولت خرچ کی جارہی ہے۔
تاج محل کو نقصان پہنچانے کی کوششیں صرف نظریاتی بنیادوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اسے عملی طورپر نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیاجارہا ۔ مثال کے طورپر تاج محل کے اردگرد ایسی صنعتوں کو فروغ دیا جارہا ہے جو خطرناک آلودگی پھیلانے کیلئے جانی جاتی ہیں۔ آلودگی پھیلانے والے ان کارخانوں اور فیکٹریوں سے جو خطرناک دھواں نکلتا ہے، اس سے تاج محل کا رنگ تبدیل ہوچکا ہے۔ اس دھویں سے تاج محل کا سفید سنگ مرمر مسلسل زردی مائل ہے۔ حکومت تاج محل کو تحفظ فراہم کرنے کے اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود کوئی ایسی ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں کرپارہی جس کی بنیاد پر اس بے پناہ حسین اور خوبصورت عمارت کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اس کی سرزنش کی ہے۔ سپریم کورٹ نے اترپردیش سرکار سے پوچھا ہے کہ تاج محل کے آس پاس انڈسٹریز کو بڑھانے کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔ عدالت نے پیرس کے مشہور زمانہ ایفل ٹاور کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یوپی سرکار وہاں سے سیکھے کہ تاریخی عمارتوں کا تحفظ کیسے کیاجاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ اہم یادگار کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق اپنے اقدامات اور کارروائی سے عدالت کو مطلع کرے۔ عدالت نے اس بات پربھی افسوس ظاہر کیا ہے کہ تاج محل کے تحفظ کے بارے میں پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ پیش کئے جانے کے باوجود حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔
تاج محل کو فضائی اور فکری آلودگی سے بچانے کی یہ مہم برسوں سے جاری ہے لیکن اس کے ساتھ ہی تاج محل کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلاجارہا ہے۔ پچھلے دنوں فرقہ پرست تنظیم کے کارکنوں نے تاج محل کو ایک ہندو بادشاہ کا محل قرار دے کر وہاں باقاعدہ پوجا پاٹ کی کوشش کی تھی۔ اس سے قبل تاج محل کے ایک مندر ہونے کا شوشہ بھی چھوڑا گیا تھا۔ غرض یہ کہ تاج محل کے حسن اور مقبولیت سے بیر رکھنے والے عناصر اسے نقصان پہنچانے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ تاج محل درحقیقت ہندوستان کی پیشانی پر ایک جھومر کی طرح ہے اور اس کے بغیر ہندوستان کا تصور ادھورا ہے۔ یہ گنگا جمنی تہذیب اور حسن وعشق کی لافانی یادگار ہے۔ ہرسال تقریباً10 لاکھ سیاح پوری دنیا سے تاج محل دیکھنے ہندوستان آتے ہیں جس سے ملک کے خزانے میں غیر ملکی زرمبادلہ کا اضافہ ہوتا ہے۔ اگر تاج محل کی بہتر دیکھ بھال ہو اور سیاحوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ ہمارے ملک کا تاج محل پیرس کے ایفل ٹاور سے بھی زیادہ خوبصورت اور حسین ہے اور یہ بیرونی کرنسی کے ذخائر میں اضافہ کرسکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایفل ٹاور کو ہرسال 8کروڑ لوگ دیکھنے جاتے ہیں جو ایک ٹی وی ٹاور کی طرح نظر آتا ہے لیکن ہمارا تاج محل اس سے کہیں زیادہ خوبصورت اور حسین ہے۔ سپریم کورٹ نے اس سے قبل تاج محل کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات کرنے میں ناکامی کیلئے محکمہ آثار قدیمہ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ آلودگی کی وجہ سے تاج محل کا رنگ پہلے زردی مائل ہوا اور اب وہ بھورے رنگ میں تبدیل ہورہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سفید سنگ مرمر کی اس حسین وجمیل تاریخی یادگار کو حالات کے رحم وکرم پر تنہا چھوڑ دیاگیا ہے۔
مزید پڑھیں:- - - - ایک میان میں دو تلواریں