Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک کو کیسے بچائیں؟

سب کو معلوم ہے کل کیا ہونے والا ہے لیکن سب نے ہونٹ سی رکھے ہیں،ملک کے مستقبل کی کسی کو پروا نہیں
خلیل احمد نینی تال والا
ایک زمانہ تھا،جب کراچی کا شمار پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے بہترین شہروں میں ہوتا تھا،پاکستان کا صدر مقام تھا،سمندر تھا۔ صنعتی ترقی زوروں پر تھی،پورے ملک سے اس شہر میں تلاش روز گار کیلئے نوجوان کھینچے چلے آتے تھے۔ اس شہر کو پھولوں کے گلدستے سے بھی تشبیہ دی جاتی تھی۔ روشنیوں کا بھی شہر کہتے تھے ۔ دن اور رات میں بھی کوئی فرق نہیں ہوتا تھا، شہری رات گئے تک سیر سپاٹے کرتے تھے۔ 
یہ واحد شہر پاکستان تھا ، جس میں پانچوں قومیں ہنسی خوشی مل کر رہتی تھیں۔ پھر اس شہر کو کسی دشمن کی نظر لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر قومیتوں میں تقسیم ہوتا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں دارالخلافہ اسلام آباد منتقل ہوا تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہر کوئی اپنے آپ کو سندھی ، مہاجر ، پٹھان، بلوچ اور پنجابی کہنے کو فخر سمجھنے لگا۔ پاکستانی صرف پاکستان سے باہر جا کر پاکستانی کہلواتا تھا اور پھر واپس پاکستان آکر وہی سندھی ، مہاجر ، پنجابی اور پٹھان بن جاتا تھا۔
آج اگر ہم اس کراچی شہر کا تجزیہ کریں تو اس شہر کی خوبصورتی کو گہن لگ چکا ہے ۔ پورے شہر کا بٹوارہ ہو چکا ہے ، کسی علاقے میں پٹھان آبادیاں تشکیل پاتی ہیں تو کسی دوسرے علاقے میں مہاجروں کی اکثریت پائی جاتی ہے ۔ شہر سے باہر سندھی اور بلوچوں کی آبادی ہے تو درمیان میں پنجابی بولنے والے۔
آج اگر آپ ائیر پورٹ سے باہر شہر کی سڑک پر آئیں گے تو شاہراہ فیصل پر پاکستان کا جھنڈا نظر نہیں آتا۔ تمام قومیتوں کے رنگ برنگے جھنڈے لگے ہوئے ہیں اور مقامی سیاستدانوں کی نمایاں تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ صرف اور صرف مقامی سیاست پر زور ہو چکا ہے جس کی وجہ سے آئے دن شہر میں ایک دوسرے پر ایسے جملے استعمال ہو رہے ہیں، جس  سے دوبارہ اس شہر میں قتل و غارت گری کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔  رینجرز ، فوج ، عدلیہ سے گزارش ہے کہ اس پر نظر رکھیں۔  بڑی بڑی صنعتیں ختم ہو رہی ہیں۔ صنعتکار ، تاجر حضرات بغیر بھتے کے کوئی کاروبار نہیں کر سکتے ۔ بڑے بڑے صنعتکار تو اپنے بچوں کو باہر بھیج چکے ہیں اور اپنا کاروبار اونے پونے داموں بیچ کر کچھ پنجاب کا رخ کر رہے ہیں اور زیادہ تر دبئی کا رخ کر رہے ہیں۔بہت ساری ٹیکسٹائل ملیں بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہیں۔  غیر ملکی یہاں نہیں آرہے ۔ تمام تر کاروباری سودے دبئی میں ہوتے ہیں۔ 
نواز شریف کے آخری دور میں حکومت کافی پریشان رہی ہے کیونکہ عدلیہ نے اس پر روز اول سے سخت گرفت رکھی ہوئی ہے۔ حکومت عدلیہ کے ساتھ 2دو ہاتھ کرنے پر تلی ہوئی تھی مگر عدلیہ نے نواز شریف کو پانامہ لیکس میں سزا دے کر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے ۔ لاپتہ افراد کا آج تک کوئی پتہ نہیں چل سکا ۔ زیادہ تر ملکی سرمایہ بیرون ممالک جا چکا ہے ۔ پہلے یہ سرمایہ دبئی میں جا کر لٹا اور اب دوبارہ گردش میں ہے ۔ دہشت گردی کھلے عام ہورہی ہے ، اغوا برائے تاوان بھی ایک مرتبہ پھر عروج پر ہے ۔ ڈالر 130روپے کے قریب پہنچ چکا ہے ، پیٹرول 100روپے سے بھی زیادہ ہو چکا ہے اور ڈیزل تو اب پیٹرول سے بھی اوپر جا چکا ہے ۔ چند دنوں بعد گیس بھی 100روپے سے زیادہ ہو جائیگی۔ پھر ہم کیسے دنیا بھر سے کاروبار کر سکیں گے۔  ہند کے روپے کے مقابلے میں ہمارا روپیہ آدھے سے بھی کم ہو چکا ہے ۔ اب اگر  ہندوستانی تاجر ہمارے روپے سے کاروبار کریں گے تو رہا سہا سرمایہ بھی  ہندوستان مع کاروبار منتقل ہو جائے گا۔
پاکستان کے مستقبل کی کسی کو کوئی پروا  نہیں ۔بلوچستان میں دن دیہاڑے غیر بلوچیوں کو گاڑیوں سے اتار کر قطاروں میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھونا جا رہا ہے ۔ ابھی چند دن پہلے ہی الیکشن مہم کے دوران خودکش دھماکے میں 151قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور 170کے قریب زخمی اسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح دوسرا واقعہ پشاور میں رونما ہوا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ لیڈر ہارون بلور کو خودکش دھماکے میں 22افراد کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ اس سے پہلے ان کے والد بشیر بلور کو بھی اسی طرح خود کش دھماکے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ آج تک کسی ایک بھی واردات کا سراغ نہیں لگ سکا۔ 
چیف جسٹس بلوچستان جا کر بار بار انتظامیہ کو خبردار کرتے رہتے ہیں ۔ مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ کل کیا ہونے والا ہے ، سب کو معلوم ہے مگر سب نے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ ہم کب تک اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں مارتے رہیں گے ۔ الیکشن سر پر ہیں اور تمام پارٹیوں کے لیڈر ایک دوسرے  کے خلاف غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کر رہے ہیں ۔ کوئی کسی کو گدھے سے تشبیہ دے رہا ہے تو دوسرا طوائف سے اور تیسرا بے غیرتوں کے نام سے  ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ کیا ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو یہی سکھائیں گے ؟عوام تذبذب میں کہ کس کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں۔ تمام سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنائیںنہ کہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالیں۔
ہم دن رات اپنی عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں ، کیا آسمان سے فرشتے آئیں گے اور اس ملک کو بچائیں گے ۔ قوم کے بچوںکا مستقبل تاریک ہو رہا ہے ۔ سوچو خدارا سوچو !اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ دنیا کو ہم پہلے ہی ناراض کر چکے ہیں۔مسلم لیگ (ن) والے کہہ رہے ہیں کہ اگر الیکشن صحیح نہیں ہوئے تو ہم رزلٹ نہیں مانیں گے۔ اور عمران خان کو ویسے ہی وزیراعظم بننے کا شوق ہے۔مگر جب سے نواز شریف صاحب واپس آئے ہیںان کے تمام جلسے ماند  پڑ گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
 

شیئر: